• news

خوف والے فیصلے درست نہ لاک ڈائون میں ٹرانسپورٹ بند ہونی چاہئے: عمران

اسلام آباد+کراچی (وقائع نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر) وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپوزیشن کا ان پٹ لینے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ پوری قوم ملکر ہی یہ جنگ جیت سکتی ہے۔ کوئی حکومت اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے معاملے پر کنفیوژن ہے، ہمیں ٹرانسپورٹ بند کرنے والا لاک ڈاؤن ابھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ٹرانسپورٹ کی بندش سے ملک میں مختلف مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ٹرانسپورٹ بند ہونے سے کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی بھی متاثرہوگی۔ لاک ڈاؤن کی آخری سٹیج کرفیو ہے، لاک ڈاؤن سے ساری انڈسٹری بند ہوگئی ہے۔ انہوں نے یہ بات قو می اسمبلی اور سینٹ میں پارلیمانی لیڈرز کی ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو بدھ کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدات منعقد ہوئی۔ ویڈیو کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شہباز شریف، مشاہداللہ خان اور خواجہ آصف، پیپلزپارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو اور شیری رحمان نے شرکت کی۔ پارلیمانی لیڈرز سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چین میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا کو چین میں رکھنے کا مشکل فیصلہ کیا۔ جس کی وجہ سے چین سے ابھی تک ایک بھی کرونا وائرس کا کیس پاکستان میں نہیں آیا۔ عمران خان نے کہا کہ خوف میں لیے گئے فیصلوں کا درست جائزہ نہیں لیا جاتا۔ کرفیو کی صورت میں ہمیں لوگوں کوگھروں میں کھانا پہنچانا پڑے گا۔ ہمیں مشاورت کرنی چاہیے اور چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے معاملے پر سندھ بہت آگے چلا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن سے ہماری تعمیراتی صنعت متاثر ہو گی۔ میڈیا کی طرف سے پریشر پڑا جس پر کے پی، بلوچستان اور پنجاب نے بھی لاک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ کرونا وائرس کی جنگ صرف قوم جیت سکتی ہے حکومت نہیں اور ہم سب مل کر اس جنگ کو جیتیں گے جس کا سہرا تمام پاکستانیوں اور تمام صوبوں کے سر ہوگا۔ ویڈیو کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے حکومت کی جانب سے اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کی تجاویز اور آراء لی جائیں گی اور حکومت سب کے ساتھ رابطے میں رہے گی اور تفصیلات بھی شیئر کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ پہلے یہ منصوبہ زیر غور تھا کہ چین سے طلبہ کو واپس لا کر حاجی کیمپ میں ٹھہرایا جائے لیکن اس خوف کے پیش نظر کہ وہاں سے وبا پھیل سکتی ہے چینی حکام سے رابطہ کر کے انہیں وہیں رکھا گیا، جو ایک اچھا فیصلہ تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے چین سے ایک بھی کیس ملک میں نہیں آیا۔ تاہم جب دوسرے ہمسائے ایران میں کرونا وبا پھیلنی شروع ہوئی تو ہمارے زائرین وہاں موجود تھے اور ایران کی حکومت کے ساتھ بھی ہم مسلسل رابطے میں تھے۔ مسئلہ اس وقت ہوا کہ جب ایران میں اس وبا نے زور پکڑا تو ایران کے پاس وہ صلاحیتیں موجود نہیں تھی جو چین کو حاصل تھیں۔ لہٰذا زائرین کو تفتان بارڈر پر لے آیا جہاں ان کے پاس زائرین کو قرنطینہ کرنے یا سکریننگ کرنے کے انتظامات نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت پر دباؤ پڑنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے ہمیں انہیں قبول کرنا پڑا۔ تفتان بارڈر کوئٹہ سے 700 کلومیٹر دور ایک ویران جگہ پر قائم ہے جہاں کوئی سہولت موجود نہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت سے حکومت نے کوشش کی کہ جس حد تک ممکن ہو وہاں سہولیات فراہم کی جائیں اور وہ ایک عارضی سہولت تھی جو پاک فوج کی مدد سے وہاں پہنچائی گئی۔ جب ملک میں صرف 21 کیس تھے اس وقت ہم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اس کے بعد قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس کیا اور قومی سلامتی کی میٹنگ میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ قومی رابطہ کمیٹی میں سندھ کا خیال تھا کہ ہمیں اس سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے جبکہ میرا اور باقی شرکا کا نقظہ نظر یہ تھا کہ ابھی ہم اس سطح پر نہیں ہیں لاک ڈاؤن کو بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خوف میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے۔ سندھ لاک ڈاؤن کے معاملے پر بہت آگے نکل گیا۔ تاہم بعد میں میڈیا اور بین الاقوامی صورتحال کی وجہ سے دباؤ پڑنے کے باعث خیبرپی کے اور پنجاب میں بھی لاک ڈاؤن شروع کردیا گیا اور اس میں ٹرانسپورٹ بھی بند کردی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے معاملے میں صوبے بااختیار ہیں لیکن میرے خیال میں اس سے تعمیراتی شعبہ متاثر ہورہا ہے اور اس کا اثر یومیہ اجرت کے ملازمین پر پڑرہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری نظر میں لاک ڈاؤن کی اقسام ہیں دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اپنے حالات کے حساب سے پابندیوں میں اضافہ کیا اور میں سمجھتا ہوں ہمیں اس لاک ڈاؤن پر بالکل نہیں جانا چاہیئے جس میں ٹرانسپورٹ بند ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کی بندش سے ہمیں رسد (سپلائی) کی صورت میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور گلگت بلتستان میں تیل کی کمی بھی ہوگئی ہے کیوں کہ ٹرانسپورٹ بند ہوگئی ہے۔ اس سے کہیں وہ نہ متاثر ہوجائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں صورتحال کا مسلسل جائزہ لینا ہوگا اور تمام صوبائی حکومتوں کو بیٹھ کر اپنے اقدامات اور معاشرے پر ان کے اثرات کا جائزہ لینا ہوگا، اس طرح کے لاک ڈاؤن کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ دنیا میں کرونا وائرس اور معیشت کے حوالے سے بحث جاری ہے اور ہمیں بھی مسلسل مشاورت اور دوبارہ جائزہ لینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھانا چاہیئے کیوں کہ جو فیصلے خوف میں کیے جاتے ہیں ان کا معاشرے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جاتا اس طرح ہم اپنے لئے ایک دوسری مشکل کھڑی کرلیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے ہے اس لئے ہم لاک ڈاؤن کے اثرات کا جائزہ لے کر جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں اپنی تجاویز پیش کریں گے کہ ٹرانسپورٹ کو اگر بند کردیا گیا تو اس کے کافی سخت اثرات ہوسکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی آخری سطح کرفیو ہے۔ کرفیو کے وقفہ میں عوام باہر نکل کر ضرورت کی اشیا حاصل کرتی ہے تو اس صورت میں عوام کا مجمع ہونے کی وجہ سے کرونا سے بچاؤ کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے اگر ہمیں کرونا کے لیے کرفیو لگانا ہے تو ہمیں عوام کے گھروں میں کھانا پہنچانا پڑے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس وہ انفرا اسٹرکچر ہے؟وزیراعظم نے بتایا کہ میں ایک رضاکارانہ پروگرام کا اعلان کروں گا تا کہ اگر ہمیں اس سطح ہر جانا پڑے تو گھروں میں کھانا پہنچانے کے لئے رضاکار موجود ہوں ابھی ہمارے پاس کوئی انفرا اسٹرکچر نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس کوئی ٹھوس حل موجود نہیں ہیں اس کے لئے سب اپنی تجاویز دیں اور ہم ان اقدام سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مسلسل جائزہ لیں۔ غریب طبقے کا دھیان رکھنا ہوگا اور یہ ہی ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کے معاشی ریلیف پیکج کو مسترد کر دیا۔ کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ حکومت کو کرونا سے نمٹنے کیلئے مکمل تیار رہنا چاہئے۔ حکومت کو وینٹی لیٹرزکی تعداد بڑھانی چاہئے۔ کرونا مزید پھیل گیا تو اس پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ حکومت کرونا وائرس سے متعلق سنجیدہ اقدام اٹھائے۔ ہمیں اپنے ہسپتالوں اور ٹیسٹ کی استعداد بڑھانا چاہئے۔ سماجی فاصلے کے ضابطے پر عمل نہ کیا گیا تو اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں مشکل فیصلے لینے ہوں گے۔ وزیراعظم نے جو اقدامات اٹھائے وہ کافی نہیں۔ ہمیں غریب عوام کا خیال رکھنا ہو گا۔ قرنطینہ‘ وینٹی لیٹرز اور طبی عملے کی تعداد بڑھانا ہو گی۔ غریبوں کے بجلی اور گیس کے بلوں کو معاف کرنا چاہئے۔ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لانا چاہئے۔ غریب خاندانوں کی ماہانہ امداد 18 ہزار روپے ہونی چاہئے۔اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان کی طرف سے وڈیو لنک پارلیمانی لیڈرز کانفرنس میں اپنی تقریر کے بعد چلے جانے پر پاکستان مسلم لیگ (ن )کے صدر میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا۔ شہباز شریف کی طرف سے واک آؤٹ کئے جانے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں شہبازشریف بڑے پن کا مظاہرہ کریں، ہم سب نے ملکراس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن میاں شہباز شریف نے ان کی بات نہیں مانی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر مشاہد اللہ خان بھی کانفرنس سے واک آئوٹ کرگئے تاہم بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی ان کو منا کر لے آئے۔ مشاہد اللہ خان نے میاں شہبازشریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کانفرنس میں دوبارہ شرکت کی اجازت دے دی۔ وزیراعظم عمران خان ویڈیو کانفرنس میں خطاب کر چکے تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پالیمانی لیڈرز کانفرنس سے چلے گئے ہیں تو ان کو بتایا گیا کہ اب وہ کانفرنس میں نہیں رہے جس پر میاں شہباز شریف نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیراعظم کے بغیر ان کا کانفرنس میں بیٹھنا مناسب نہیں اس کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی واک آئوٹ کر دیا۔ وڈیو لنک پر نہیں آئے جب کہ ان کی جماعت کے رہنما راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمن نے کانفرنس میں شرکت کی۔ میاں شہباز شریف نے موقف اختیار کیا کہ’’ وزیراعظم اجلاس سے کیوں چلے گئے۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، وزیراعظم سنجیدہ ہیں یہ ملک کے سربراہ کی سنجیدگی کا لیول ہے۔ ایسی صورتحال میں اجلاس میں بیٹھنا مناسب نہیں اور کانفرنس سے وڈیو لنک ختم کر دیا۔ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے دوران وزیراعظم کی غیر موجودگی پر افسوس ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی بات نہیں سننا چاہتے۔ پوری قوم نے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی سنجیدگی دیکھی، احتجاجاً میں نے واک آؤٹ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدرسینیٹر مشاہد اللہ نے خطاب کیا اور وزیر اعظم کے کانفرنس سے چلے جانے کو اپوزیشن کی دانستہ تذلیل کرنے کا اقدام قرار دیا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپوزیشن سے بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اگر بروقت فوج کو طلب کر لیتی تو فوج دنوں میں قرطینہ مراکز قائم کر دیت۔ وزیراعظم کو میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرنی چاہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ ملک میں اب تنقید، سیاست کا وقت نہیں، قومی سلامتی کی بات ہے۔ پاکستان میں ہم سب نے ملکر کرونا وائرس سے نجات حاصل کرنی ہے وڈیو کانفرنس سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، راجہ پرویز اشرف ، شیری رحمن، سینیٹر عثمان کاکڑ اور دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔

ای پیپر-دی نیشن