جناب وزیراعظم کرفیو کے علاوہ کوئی راستہ نہیں!!!!
شہر کا جائزہ لینے اور لاک ڈاؤن کی صورتحال دیکھنے کے لیے لمبا سفر کیا رنگ روڈ پر واقع رہائشی علاقوں کی صورت حال تو پریشان کن تھی کئی مقامات پر سو ڈیڑھ سو کے قریب لڑکے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔ اس کے علاوہ بھی سڑکوں کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں تھی۔ عوام کا رد عمل وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیے۔ یہ ان علاقوں کی صورتحال ہے جہاں بڑے بڑے گھر ہیں، سمجھا جاتا ہے کہ نسبتاً ذمہ دار اور سمجھدار لوگ رہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہاں رہنے والے نسبتاً باشعور ہیں لیکن جو ہم دیکھ کر آئے ہیں وہ بہت مایوس کن ہے۔
اگر یہاں لاک ڈاؤن کے باوجود یہ حالات ہیں تو ان علاقوں میں لوگ لاک ڈاؤن پر کتنا عمل کر رہے ہوں گے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ شہر کے گنجان آباد اور پرانے علاقوں میں ایسے گھروں کی کمی نہیں ہے جہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں سات آٹھ افراد رہتے ہیں تنگ گلیاں ہیں ایسے علاقے جہاں زندگی گلی میں جمع ہوئے بغیر زندگی کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔ جہاں فاصلہ رکھنا نہایت مشکل ہے وہاں لوگوں کے نزدیک وبائی امراض کی احتیاطی تدابیر کو فیشن سمجھا جاتا ہے وہاں لاک ڈاؤن کیسے اثر کر سکتا ہے۔ ان علاقوں کی اپنی روایات ہیں ہمارے رہن سہن میں کئی ایسی بنیادی چیزیں ہیں جن میں مشکل ترین حالات میں بھی معاشرتی فیصلہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ بھلے سازشوں کے لیے جمع ہوں، بھلے ایک دوسرے کی برائیاں کرنے کے لیے یا پھر چھٹیوں کا وقت گذارنے کے لیے جمع ہو جائیں وہاں ایسی بیٹھک کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں لاک ڈاؤن سے آگے بڑھنا پڑے گا۔ قوم کو بڑی مصیبت اور ملک کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ہر حال کرفیو کی طرف جانا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی نظر آئی ہے اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کرفیو سب سے اہم اور موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ کب تک لاک ڈاؤن کے سہارے رکے رہیں گے۔ سب سے پہلی ترجیح کرونا کو روکنا اور اس کے دورانیے کو کم کرنا ہے وہ اسی صورت ممکن ہے جب اسے ابتدائی طور پر ہی روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ ملک بھر سے کرفیو کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے ان حالات میں وزیراعظم پاکستان کو اس آخری، سب سے اہم اور موٹر ہتھیار کے استعمال کا فیصلہ کرنا ہی ہو گا۔ دس پندرہ دن یا بیس پچیس دن بعد یہ کڑوا گھونٹ پینا ہے تو ابھی یہ فیصلہ کر لیں تاکہ ہم ملک سے کرونا کا جلد خاتمہ کر سکیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان ابھی تک اس فیصلے کے مخالف ہیں وہ تو لاک ڈاؤن کی حمایت بھی نہیں کر رہے تھے لیکن اس فیصلے کے مثبت اثرات متاثرین کی تعداد میں کمی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں اس لیے اب وزیراعظم کو جلد از جلد کرفیو کی طرف آنا چاہیے۔
یہ جنگی یا دہشت گردی کے خلاف کرفیو نہیں ہے یوں اس کے لیے نقل و حرکت کے قوانین میں حالات و واقعات کے مطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ میڈیکل سٹوروں، کھانے پینے کی اشیاء کی دکانوں، جنرل سٹوروں، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں ڈاکٹرز کو باہر نکلنے کی اجازت دی جائے۔ غیر ضروری طور پر باہر نکلنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ یہ سختی مستقبل میں ہمارے لیے آسانی پیدا کر سکتی ہے۔ اس بارے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومت کو پہل کرنی چاہیے۔ وزیراعظم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب وہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بعد میں ہیں اور ملک کے وزیراعظم پہلے ہیں وہ صرف پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز کے وزیراعظم نہیں ہیں بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں موجودہ نظام حکومت میں انہیں چیف ایگزیکٹو سمجھتے ہوئے پارلیمانی نظام کو آگے بڑھا رہی ہیں اس لیے وزیراعظم کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کر رہے ہیں آپ انہیں پسند کرتے ہیں یا نہیں لیکن وہ دونوں نظام کا حصہ ہیں اور انہیں نظر انداز کر کے نظام آگے نہیں بڑھتا۔ وزیر اعظم عمران خان کو موجودہ صورت حال میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے سب کو سننے اور ساتھ لیکر چلنے کی پالیسی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو سنیں بعد میں اپنی تقریر کریں۔ برداشت ہی پارلیمانی نظام کا حسن ہے۔ جمہوریت گفتگو سے قائل کرنے کا نام ہے۔ گذشتہ روز پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف نے واک آؤٹ کیا ہے وزیراعظم کو قومی اتفاق رائے کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایسے واقعات سے بچنا ہو گا گوکہ میاں شہباز شریف نے ن لیگ کے اجلاس میں خود بھی ایسا ہی کیا لیکن وزیراعظم کو تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ہی لے کر چلنا ہے۔ ان کے وزراء اور مشیروں کی کارکردگی پر ہر گذرتے دن کے ساتھ سوالات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے دنوں میں انہیں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرنی چاہیے نا ہی کسی کو چھپانے کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کے مفادات کے خلاف فیصلے کرے وزیراعظم کو اس کے خلاف فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ تمام وزیروں مشیروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کے عہدے صرف عمران خان کی وجہ سے ہیں اور اگر عہدے مل گئے ہیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کی خدمت کریں۔