• news
  • image

میڈیا کے مسائل، حکومت کی ذمہ داری اور کرونا کے حملوں سے بچاؤ کا نسخہ!!!

موجودہ حالات میں میڈیا عوامی شعور اور آگاہی مہم نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ اس شعبے کا ہمیشہ سے ہی عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور حکمرانوں کی سمت درست کرنے میں کردار بہت اہم رہا ہے۔ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے۔ تمام سرکاری اداروں کو بھی عوامی سطح پر مقاصد کے حصول میں میڈیا کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔ بیرونی دنیا میں اپنا مقدمہ پیش کرنے، اپنا نقطہ نظر بیان کرنے اور دنیا سے جڑے رہنے میں میڈیا سے بہتر اہم اور موثر کچھ نہیں ہے۔ حریف ممالک بہت سے معاملات میں میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان دنوں ملک کرونا وائرس جیسے جان لیوا بحران کا شکار ہے۔ اس مشکل دور میں حکومت کی طرف سے تمام شعبوں کو امدادی پیکج دیے جا رہے ہیں۔ معاشی اعتبار سے پاکستان مشکل ترین دور سے گذر رہا ہے۔ حکومت کے وسائل بھی محدود ہیں ان محدود وسائل کے باوجود حکومت کی طرف سے تمام طبقوں کی مدد کی مدد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ حکومت کو اس ریلیف پیکج میں میڈیا کا حصہ بھی رکھنا چاہیے۔ مضبوط میڈیا ہی ملکی ترقی کا ضامن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس شعبے کی طرف جب پورا ملک مشکل میں ہے تو اخبارات اور ٹیلیویڑن چینلز متاثر ہوئے بغیر کیاے رہ سکتے ہیں۔ اے پی این ایس نے حکومت سے پانچ نکاتی بیل آؤٹ ریلیف پیکج کی اپیل کی ہے۔ اے پی این ایس کے پانچ نکات میں حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ حکومت پرنٹ ایڈورٹائزنگ کے لیے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے تین ماہ میں ماہانہ ایک ارب روپے خصوصی طور پر مختص کرے۔ وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبر پی کے حکومتیں طویل عرصے سے التوا کا شکار بقایا جات کی ادائیگی، سرکاری اشتہارات کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ، اخبارات کے دفاتر اور پریس مشینوں کے لیے بجلی کی فراہمی پر نیپرا ٹیرف میں پچاس فیصد کمی اور ایف بی آر کو رواں مالی سال کے لیے اخبارات کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ اے پی این ایس کے ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ملک بند ہے تو ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اپنی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈال کر فرائض ادا کر رہے ہیں۔ میڈیا نے ہر دور میں ملکی ترقی، استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مشکل وقت میں دیگر شعبوں کی طرح پرنٹ میڈیا کو بھی حکومتی تعاون کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ سو اختلافات ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں تمام ادارے کبھی بھی ایک ہی سوچ اور حکمت عملی کے ساتھ آگے نہیں بڑھتے سب اپنی اپنی سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں اس دوران جو اختلاف رکھتے ہوں انہیں بھی ساتھ ملانے اور بہتر کام لینے کی حکمت عملی سے معاملات اور تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا آزاد اور خود مختار ہے اس نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی بہت مدد کی ہے۔ آج میڈیا کو اس مشکل وقت میں عمران خان کی ضرورت ہے تو انہیں بھی میڈیا کا ساتھ دینا چاہیے۔ گفتگو کا دروازہ کھولنے سے معاملات بہتری کی طرف بڑھتے ہیں۔ بات چیت کا دروازہ بند ہونے سے سب کا نقصان ہوتا ہے۔ امریکہ طالبان جنگ کے بعد بھی اختتام بات چیت کے ذریعے ہی ہو رہا ہے ہمیں اسی سے کچھ سیکھتے ہوئے ریاست کے تمام اداوں پر لاگو کرنا چاہیے۔ نوائے وقت گروپ کو ہی دیکھ لیں مسئلہ کشمیر پر کیا شاندار کردار ادا کر رہا ہے۔ روزانہ نوائے وقت اور دی نیشن میں صفحہ اوّل پر بھارت کے کرفیو اور لاک ڈاون کا اشتہار شائع ہو رہا ہے۔ دو قومی نظریے اور قیام پاکستان کی تاریخ کو نوجوان نسل تک منتقل کرنے میں بھی نوائے وقت گروپ کا کردار سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس عمل کا فائدہ ریاست کو ہے۔ یہ ملک کی خدمت ہے اور نوائے وقت دہائیوں سے یہ کام کر رہا ہے۔ کرونا وائرس کی آگاہی مہم میں بھی روزانہ کی بنیاد پر اشتہارات شائع کیے جا رہے ہیں۔ ادارے کی سطح پر یہ قومی فریضہ ہے اس مہم سے جہاں پاکستان کو فائدہ ہو گا وہیں حکومت کا بوجھ بھی کم کیا جا رہا ہے اگر ادارے مثبت انداز میں قومی مفاد میں حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو حکومت کو بھی آگے بڑھ کر سب کو گلے لگانا چاہیے۔ خبروں کے انتخاب، کالموں کی زبان، اداریے آزاد ہی رہیں تو نسلیں سنورتی ہیں۔ تنقید برداشت کرتے ہوئے سب کو گلے لگائیں ملک و قوم کی ترقی اتحاد اور اتفاق میں چھپی ہوئی ہے۔ وزیراعظم یہ کر کے دیکھیں انہیں ایک مختلف پاکستان نظر آئے گا۔ کرونا کے جنگ کے لیے سب متحد ہیں اور سب کا مقصد عوام کو بچانا ہے وزیراعظم اس اتحاد کا فائدہ اٹھا کر ملک کی تاریخ بدل سکتے ہیں۔
کرونا کے مسئلے پر گذشتہ روز ڈاکٹر مشتاق احمد نے کچھ بھیجا تھا اس کا بقیہ حصہ آج شامل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ صاف ستھرے ماحول اور بہتر طرز زندگی گذارنے والوں کی نسبت کم سہولیات رکھنے والے افراد میں انفیکشن اور وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان گندگی پسند ہو جائے۔ یہ لکھنے کا مقصد قارئین کو بتانا ہے کہ انسانی جسم اپنی حفاظت خود کرتا ہے اور خود ہی بیمار ہوتا ہے۔ دیکھ لیں کہ وہ تمام ممالک جہاں طرز زندگی بلند ہے وہاں شرح اموات زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ انسانی جسم انفیکشن سے مقابلے کے لیے خود ہی تیار ہوتا ہے اس کی مثال یوں بھی ہے کہ اگر کرونا وائرس اتنا خطرناک ہوتا تو ڈاکٹر، نرسیں، پیرا میڈیکس اور صفائی ستھرائی کا کام کرنے والوں میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہوتی یہ فریضہ انجام دینے والوں میں انفیکشن کا مقابلہ کرنے کا خود کار مدافعتی نظام زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یوں بھی دیکھیں کہ مدارس میں پڑھنے والے اکٹھا کھانا کھاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی انفیکشن ملنے سے وہ کم بیمار پڑتے اور قوت مدافعت میں دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ انسانی جسم جذباتی اور اعصابی خوف سے نمٹنے کے لیے کارٹی سون اور اس کے ذیلی مرکبات بناتا ہے۔ گردوں کے اوپر موجود ایڈرینل گلینڈ ہر وقت کارٹی سون بنانے میں مصروف رہتا ہے۔عوام پہلے ہی اپنے کاروباری، مالی، ملازمت، معاشرتی اور نفسیاتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں چونکہ ان دنوں کرونا کا خوف ہے پہلے سے دباؤ کا شکار اینڈرینل گلینڈ کی کارکردگی اس اضافی دباؤ میں متاثر ہونے اور کارٹی سون بنانے کی صلاحیت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کی کمی کی وجہ سے ہی کانوں، آنکھوں، جلد، کینسر، ایڈز، ہائی بلڈ پریشر، دل، گردوں، شوگر اور جوڑوں کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ چونکہ کارٹی سون اینٹی ٹینشن ہارمون ہے کرونا کے خوف کی وجہ سے انسانی جسم کو زیادہ مقدار میں کارٹی سون کی ضرورت ہے اس کمی کی وجہ سے قوت مدافعت میں شدید کمی ہوتی ہے اور انفیکشن کے حملے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ خوف کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے انسانی جسم میں اینڈرینل گلینڈ کا تحفہ عطاء فرمایا ہے اس کی صحت اور کارکردگی فطری حدود میں رہنا اشد ضروری ہے۔ انسانی جسم کو مدافعتی کیمیکلز بنانے کے لیے خام مال کی بطور خوراک ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر حالتوں میں پروٹین وٹامنز اور منرلز کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ خام مال جسم میں موجود نہ ہو تو جسم مناسب مدافعتی کیمیکلز نہیں بنا سکتا۔ اس کمی کی وجہ سے انفیکشن بیماری پھیلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جگر کا صحت مند رہنا نہایت ضروری ہے ورنہ مدافعتی کیمکلز نہیں بن سکتے۔ وبائی امراض کے دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس دوران ہر شخص وبا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ جن میں اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی وہی بیمار ہوتے ہیں۔ مناسب خوراک،تمام احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم کرونا کے خوف سے نجات ہے۔ یہ خیال یا وہم کہ کہیں کرونا وائرس کا شکار نہ بن جائیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے۔ پر سکون اور پر امید رہتے ہوئے منفی خیالات کو رد کریں یہ مثبت خیالات بھی جسم میں مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ انسانی ذہن جیسا سوچتا ہے جسم ویسا ہی ہو جاتا ہے اگر انفیکشن کا خوف طاری کریں گے آپ ضرور بیمار ہو جائیں گے لہذا صحت کے بارے پرامید رہیں اور اللہ سے دعا کریں جیسی امید آپ اللہ سے رکھیں گے ویسا ہی جواب آئے گا ارشاد باری ہے کہ جو مجھ سے جیسی امید رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی پیش آتا ہوں۔ مثبت سوچ سے بننے والے کیمیکلز انسانی جسم کو پرسکون رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثبت سوچ اور یقین دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں صاحب ایمان لوگوں کا اللہ پر اعتماد اور سیکولر ذہن کی مثبت سوچ بیماریوں سے تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
کرونا کے حوالے سے واقع ہونے والی اموات کی خبروں سے پیدا ہونے والے خوف نے انسانی جسم میں فطری نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ انسانی جسم ہر طرح کی انفیکشن، زہر، بیکٹیریا، فنگس، وائرس اور ریڈی ایشن سے بچاؤ کے لیے خود ہی مناسب کیمیکلز بناتا ہے۔ یہ کیمیکلز ہر طرح کے انفیکشن کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ مدافعتی صلاحیت ماں سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے یا پھر جسم بیمار ہو کر خود یہ صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ جہاں جسم یہ کیمیکلز نہ بنا سکے پھر ویکسین کی مدد حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ ان دنوں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والا میڈیکل کا عملہ کرونا کی ویکسین تیار کرنے میں سب سے اہم اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میڈیکل عملے کے خون کے نمونوں سے اینٹی باڈیز کی ساخت معلوم کر کے وہی اینٹی باڈی بنانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ ہمیں ہر معاملے میں یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھنے کے بجائے تحقیق پر زور دینا چاہیے۔ ہم خود بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس ویکسین کی تیاری میں کھربوں اربوں خرچ ہوں گے۔ جبکہ سال ڈیڑھ سال کا وقت بھی لگ سکتا ہے اس دوران کیا ہو کوئی نہیں جانتا۔ البتہ انتہائی کم وقت میں ہومیوپیتھک فارمیسی کے ذریعے یہ کام زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں کیا جا سکتا ہے۔ ہومیوپیتھک فارمیسی کرونا کے مریضوں کے بلغم اور خون سے مناسب نو سوڈ بنایا جا سکتا ہے یہ ویکسین کی طرح کام کرتا ہے۔ بشرطیکہ میڈیکل فیکلٹی اسے تسلیم کرے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے سہارا اور بیکس بنا کر دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ ہر طرح کی صلاحیتوں سے اعتماد کے ساتھ زندگی گذارنے کے لیے بااختیار بنایا ہے۔ لہذا مناسب خوراک،ورزش، صفائی، عبادت اور دوسروں کی خدمت کو زندگی کا شعار بنائیں۔ بیماری کا شکار نہیں ہوں گے جو لوگ اپنی جان اور مال کے ایثار سے دوسروں کی خدمت کرتے ہیں بیماری ان سے کوسوں دور رہتی ہے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ میں بیمار کیوں ہوتا ہوں۔ اس کا مفہوم ایسے بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسان جب صحت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے بیمار پڑتا ہے(شعوری غلطی) تو اللہ تعالیٰ کی انسان کو عطاء کی گئی قوت مدافعت (لاشعوری) کوشش سے شفاء پاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں انسان خود ہی بیمار ہوتا ہے اور خود ہی صحتیاب ہوتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن