حضرت صدیقِ اکبر کا ایک خطبہ
میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ سے ڈرو،اس کی شان کے مطابق اسکی حمد کرو۔اور اللہ کے عذاب خوف تو ہونا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ اس کی رحمت کی امید بھی رکھو۔اور اللہ سے خوب گڑگڑا کر مانگو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کے گھر والوں کی قرآن میں تعریف فرمائی ہے اور ارشادفرمایا ہے:’’یہ سب نیک کاموں میں تندہی کرتے تھے۔اور امید وبیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے خشیت اختیار کرتے تھے‘‘۔(انبیاء ۔۱۹) پھر اے اللہ کے بندوں تم بھی یہ جان لوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بدلے میں تمہاری جانوں کو رہن رکھا ہوا ہے ۔اور اس پر اللہ نے تم سب سے پختہ عہد بھی لیا ہے اور اس نے تم سے دنیا کے قلیل اور ناپائیدار سامان کو آخرت کے کثیر اور دائمی اجر کے بدلے میں خرید لیا ہے۔اور یہ تمہارے درمیان اللہ رب العز ت کی کتاب ہے جس کے عجائب ختم نہیں ہوسکتے ۔ اور جس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتا لہٰذا اس کتاب کے ہر قول کی تصدیق کرواور اس سے نصیحت حاصل کرو۔اور قبر کے تاریک دن کے لیے اس میں سے روشنی حاصل کرو۔ اللہ نے صر ف تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور (نامہ اعمال لکھنے والے)کریم فرشتوں کو تم پر مقرر کیا ہے جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔ تو پھر اے اللہ کے بندوں یہ بھی جان لوکہ تم صبح وشام اس موت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہو جس کا وقت مقرر ہے لیکن تمہیں اس سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔تم اس بات کی پوری کوشش کرو کہ جب تمہاری عمر کا آخری وقت آئے تو تم اس وقت اللہ کے کسی کام میں مصروف ہواور ایسا تو تم صرف اللہ کی مدد ہی سے کرسکتے ہو۔لہٰذا عمر کے مکمل ہونے سے پہلے تمہیں جو مہلت ملی ہوئی ہے اس میں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ورنہ تمہیں اپنے برے اعمال کی طرف جانا پڑے گا۔ اپنے ایمان و عمل کی انہیں کوئی فکر نہیں میں تمہیں ان جیسا بننے سے سختی سے روکتا ہوں۔(نیکی اختیار کرنے میں )جلدی کرو کیونکہ تمہارے پیچھے موت کا فرشتہ لگا ہوا ہے جو تمہیں تیزی سے تلاش کر رہا ہے اوراسکی رفتار بھی بہت تیز ہے۔(اور یادرکھو !)اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضاء مقصود نہ ہواور اس مال میں کوئی خیر نہیں جسے اللہ کے رستے میں خرچ نہ کیا جائے ۔اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اسکی بردباری پر غالب ہواوراس آدمی میںبھی کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے۔(ابو نعیم ،حاکم)