’’مواخاۃؔ ، غزوۂ تبوک ؔ، خلیفہ اؔسلامؓ اوّل کی تنخواہ !‘‘
معزز قارئین! ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کو ربّ العالمِین ؔاور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو رحمۃُ للعالمِین ، تسلیم کرتے ہیں اِس لئے یقینا ، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان یہی دُعائیں کر رہے ہوں گے کہ’’ دُنیا کے سارے اِنسانوں کو ’’ کرونا وائرس‘‘ کے ’’ عذابِ الیم‘‘ سے نجات مِل جائے!‘‘ لیکن، ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے گھر (وطن عزیز )سے زیادہ محبت ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ’’ پاکستان میں رہنے والے ہر اِنسان کو اِس ’’ عذابِ الیم ‘‘ سے جتنا جلد ہوسکے نجات مِل جائے!۔ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے اکابرین اور علماء کرام بھی اپنے اپنے طور پر ، اِس طرح کے اعلانات کر رہے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل ’’ قومی رابطہ کمیٹی ‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ "Free Media Must for Democracy"۔ (یعنی۔ جمہوریت ۔ ’’ موجودہ جمہوریت ‘‘ کے لئے اخبارات اور نشریاتی اداروں کی آزادی بے حد ضروری ہے ‘‘) ۔ جنابِ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر کوئی وزیر "Corruption"(بدعنوانی) میں"Involved"( ملوث ) ہو تو، میڈیا کو اُسے "Point out"(نشان دہی ) کرنا چاہیے‘‘۔سوال یہ ہے کہ ’’ جنابِ وزیراعظم کا اتنا اعلان ہی کافی ہے ؟۔ اِس وقت ’’پارلیمنٹ‘‘ (سینٹ اور قومی اسمبلی ) اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ، جن میں سے بعض پر بدعنوانی کے سنگین مقدمات بھی تو ، چل رہے ہیں ، بھلا وہ پاکستان کے 60 فی صد سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مفلوک اُلحال عوام کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟اور کیوں کریں گے ؟۔صدر مملکت ، وزیراعظم ، پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ ، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں ، گورنروں ، وزراء اعلیٰ اور بہت سے وفاقی اور صوبائی افسران نے بھی اپنی (ایک ماہ یا چند دِن کی تنخواہ ) مفلوک اُلحال لوگوں کے لئے وقف کردِی ہے ۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی اِس ’’کارِ خیر ‘‘کے لئے اربوں روپے وقف کردئیے ہیں لیکن، کیا یہ کافی ہے؟۔
مواخاۃ!
پیغمبر انقلابؐ نے مکّہ سے مدینہ منّورہ ہجرت کی تو، ہجرت کے موقع پر تمام مہاجرین مکہ معظمہ سے خالی ہاتھ آئے تھے ۔ اکثر کو چُھپ چُھپا کر ہی آنا پڑا۔ اِس لئے ان کا اپنے ساتھ مال و اسباب لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو ان کے اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت قائم کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ آپؐ نے انصارِ کو حضرت انس بن مالکؓ کے گھر پر جمع کِیا۔ مہاجرین کی تعداد 45 تھی۔ حضورؐ مہاجرین اور انصار میں سے دو دو اشخاص کو بلا کر فرماتے گئے کہ ’’ تم اب بھائی بھائی ہو‘‘۔ چنانچہ یہی تعلق ’’مواخاۃ ‘‘ (بھائی چارہ) کہلاتا ہے ۔ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر گھر کی ایک ایک چیز کا جائزہ لِیا اور کہا آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے ۔ جنگِ بدر سے پہلے تو مواخاتی بھائیوں کو ان کے انصار بھائیوں کے ترکہ میں سے بھی حصہ ملتا رہا۔ اِس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ انصار ہمہ تن اسلامی رنگ میں رنگے گئے۔
غزوۂ تبوک!
9 ہجری (نومبر 630ء ) کے غزوۂ تبوک ؔ کے موقع پر ’’ جب پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے جنگی اخراجات کے لئے خُدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دِی تو، اکثر صحابہ نے بڑی ، بڑی رقوم پیش کردِی تھیں۔ حضرت عُمر ؓ اپنے سارے مال و اسباب میں سے نصف لے آئے تھے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کے پاس جو کچھ تھا وہ سارے کا سارا پیش کردِیا تھا ‘‘۔
خلیفہ اسلام اوّل کی تنخواہ!
معزز قارئین!۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جب ، 11 ہجری کو خلیفہ اسلام اوّل کی حیثیت سے کام شروع کِیا تو، آپؓ دوسرے روز اپنے کپڑے کے کاروبار کے لئے جانے لگے تو، صحابہ کرام ؓنے کہا کہ ’’ اب آپ خلیفہ اسلام ہیں ، کوئی کاروبار شروع نہیں کرسکتے تو آپؓ نے کہا کہ ’’ پھر میرے اہل و عیال کیسے گزارہ کریں گے؟‘‘تو، صحابہ کرام ؓنے کہا کہ ’’آپ بیت المال سے وظیفہ (تنخواہ) لے لِیا کریں ‘‘۔ خلیفہ اسلام نے کہا کہ ’’ ٹھیک ہے ، مَیں بیت المال سے مدینہ منورہ کے ایک عام مزدور کی آمدن کے برابر وظیفہ (تنخواہ ) لے لِیا کروں گا‘‘۔ اِس طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مدت خلافت دو برس، تین ماہ اور گیارہ دن ( 11 ہجر ی۔632ء تا 13 ھ۔634ء ) تھی ۔ وفات سے کچھ دِن پہلے آپ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ ’’ مجھے اب تک بیت اُلمال سے کتنا وظیفہ (تنخواہ) ملا۔ تو جواب ملا کہ ، 6 ہزار درہم!‘‘۔آپ نے کہا کہ ’’میری فلاں زمین فروخت کر کے یہ روپیہ بیت المال کو واپس کردِیا جائے‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہُوا!۔
علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ !
معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو، اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی اپنے دوست یا شاگرد وکلاء میں تقسیم کردیتے تھے ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جب گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تو اپنی ساری جائیداد قوم کے نام وقف کردِی تھی۔ جب بھی کسی حکمران نے ریاستِ مدینہ کا ذکر کِیا تو، مَیں نے یہی لکھا کہ ’’ دولت مندوں اور غریبوں میں ’’مواخاۃ ‘‘ (بھائی چارہ) قائم کریں اور خلیفہ اوّل اسلام کے برابر تنخواہ لِیا کریں لیکن، یہ کام تو بہت ہی مشکل ہے تو، پھر ریاست ِ مدینہ کے دوسرے عہدیدار اس طرح کا "Risk" (خطرہ) کیوں مول لیں گے؟۔