• news
  • image

کرونا اور صحافتی رویے

عزت سادات گنوانے کیلئے عاشقی کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ، صحافت، پچھلے دنوں وزیراعظم نے کرونا کی مصیبت سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے اسلام آباد (زیادہ تر) نوزائیدہ سینئر صحافیوں کا اجلاس طلب کیا۔ مقصد اور مدعا یہ تھا کہ کرونا کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ ان کی راہنمائی کیلئے ان سے مشورہ کیا جائے لیکن ہوا یہ کہ ہمارے یہ نوزائیدہ سینئر صحافیوں نے کرونا کی مصیبت سے نمٹنے کے بجائے ، ذاتی غم و غصے کا اظہار فرمانا شروع کر دیا۔ موضوع سُخن کرونا سے ہٹ کر میر شکیل الرحمن کی رہائی اور ذاتی گلے شکوئوں کی طرف منتقل ہو گیا۔
جن نامور اور اکابر صحافیوں نے اس پریس کانفرنس میں شرکت فرمائی ، ان کا لب و لہجہ جس قدر تیکھا اور نوکیلا تھا وہ قابل سماعت بھی تھا اور قابل دید بھی ، ان کے سوال و جواب سراسر سیاسی پہلو کے مکالمے جیسے تھے۔ ان کی کاٹ اور سوالوں کے تیکھے پن سے تو یوں لگتا تھا کہ پاکستان کا بحران کرونا نہیں بلکہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تو ہمیں یوں لگا جیسے وہ وزیر اعظم کے صبر کا امتحان لے رہے ہوں۔ حیرت انگیز طور پر وزیراعظم نے ان کے سوالوں کے جوابات بھی دئیے اور بار بار یہ ریمائنڈ بھی کروایا کہ اس پریس کانفرنس کا موضوع کرونا ہے تاکہ ذاتی شکوے شکایت اس مصیبت کی گھڑی میں حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے اور صحافت کے نا خدائو بتائو کہ آپ کیا تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے شیر دل صحافی معاف کیجئے گا۔ نوزائیدہ سینئر صحافی حضرات کے رویوں سے یہی محسوس ہوا کہ اگر کرونا کی مصیبت سے جان چھڑانی ہے تو میر شکیل الرحمن کو فوراً رہا کر دینا چاہئے۔
میں نے شروع میں عرض کیا تھاکہ عزت سادات گنوانے کیلئے عاشقی کے علاوہ اور بھی کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے موثر ترین صحافت ہے۔
ہمارے ان جی دار صحافیوں نے جس جرأت اور بہادری سے وزیر اعظم سے سوالات کئے ، انہیں دیکھتے ہوئے بے اختیار یوسفی مرحوم کے ایک کردار پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے بی ٹی (گول میڈلسٹ) کی یاد آتی ہے کہ بقول مرنا پروفیسر صاحب کی بہادری ، شجاعت سے گزر کر تیور اور تہور سے گزر کر، حماقت کی ماورائے حدوں میں داخل ہو چکی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں ہمارے یہ صحافی حضرات بھی کچھ ایسی ہی پروفیسرانہ تہور کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔
وزیراعظم کا موقف یہ تھا کہ آج کا موضوع کرونا کا جنجال ہے، اور اسی پر ہی فوکس رہا جائے۔ جبکہ ہمارے جید صحافی حضرات کا خیال یہی تھاکہ کرونا ایک فردی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر کسی طرح سے ان کی تجاویز کو جن کا کرونا کے مسئلے سے دُور دُور تک تعلق نہیں تھا۔ اُن پر توجہ دی جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم ہائوس میں مدعو کئے جانے والے صحافی حضرات/ خواتین کو مدعوکئے جانے کے آداب کیاہیں۔ یہ مجھے نہیںمعلوم کہ جن معیار کی بنیاد پر انکی سنیارٹی کا تعین کیاجاتا ہے۔ بقول برادرم ایثار رانا کے۔ ایک ویڈیو پیغام کے ان میں سے بیشتر صحافی حضرات ایسے تھے جنہوں نے کبھی دو لفظ بھی لکھے اور عملی صحافت سے اُن کا دور دورکا واسطہ بھی نہیں اور ان میں سے بہت سوں نے کسی اخبار کے دفتر میں قدم بھی نہیں رکھا۔ ایثار رانا ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اور حقیقتاً صحافی بھی ہیں۔ عمدہ کالم بھی لکھتے ہیں۔ ان کی تحریر بھی منطقی ہوتی ہے اور لکھتے وقت وہ غیر جانبداری کے عنصرکو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں لہٰذا انکی بات اور دلائل کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جا سکتا ہے۔ ان کے اٹھائے گئے سوالات برجستہ بھی ہیں اور وزن بھیرکھتے ہیں کہ آخر جس معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے، وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی پریس کانفرنس از میں ان صحافیوں کو دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ نثار رانا کے علاوہ سوشل میڈیا پر جو عوامی ردّعمل آیا وہ نہ صرف نشاندہی ہے بلکہ قابل غور بھی ہے۔ میں نے نہایت غیر جانبداری سے اس کا جائزہ لیا۔ ایک بڑی اکثریت نے اس پریس کانفرنس میں صحافیوں کے رویے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے بلکہ ان کے لب و لہجہ اور لفظوں کے انتخاب پر حیرت اور غصے کا یکساں اظہار کیا ہے۔
عوامی ردعمل کا مجموعی تاثر شدید ناراضگی پر مبنی ہے اور جس انداز میں لوگوں نے ان کے اس رویے کی مذمت کی ہے اگر یہ نوزائیدہ سینئر صحافی اگر پڑھ سُن لیں تو ہو سکتا ہے اس پیے کو ہی خیر آبادکہہ جائیں۔
عوام نے ان کے اس رویے کا نہ صرف شدید برا منایا ، بلکہ بہت سختی سے اسکی مذمت بھی کی ہے۔ اس پریس کانفرنس کے دوران ان کے لب و لہجے کا اتار چڑھائو ، بے کار اور بُرا تھا بلکہ بے محل بھی تھا۔ جِسے نہ صرف عوامی بلکہ صحافتی حلقوں میں بھی کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ نہ صرف یہ کہ پورا ملک بلکہ پوری دنیا خوف و دہشت کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔ دنیا بھرکی حکومتیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ امریکہ جیسی سپرپاور کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔ یورپ کے تمام ممالک اس وبا کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں نہ جانے یہ بحران کب ٹلے گا۔ اس کا کوئی وقت متعین نہیں۔ ابھی تک اسکے پھیلنے کے اسباب سمجھ نہیں آ رہے۔ پوری دنیا اپنے اپنے گھروںمیں محصور ہو چکی ہے۔ دُنیا بھرمیں صرف اور صرف ایک ہی موضوع زیر بحث ہے کہ اس عذاب سے کیسے نجات پائی جائے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اوراپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر اس بحران سے نبٹنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں اور ہونا بھی یہی چاہئے کہ یہ بحران کسی ایک ملک یاسرحد کے اندر نہیں ہے۔ کررونا وائرس پوری انسانیت کیلئے مہلک خطرے کا سبب ہے۔ اسے نہ تو کسی کی حکومت کی پرواہ ہے نہ کسی اپوزیشن کی ، نہ کسی مذہب یا ملک کاخیال ہے اورنہ ہی کسی رنگ و نسل کی پرواہ ہے۔ یہ ایک مصیبت ہے جو نوع انسانی پر نازل ہو چکی ہے۔ یہ وقت مل کر اس سے مقابلہ کرنے کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ اپنے ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ ذات پات ، سیاسی نظریات،رنگ و نسل سے اور ذاتی مفادات سے اوپر ہو کر سوچنے کا ہے۔
ایسے میں جب پوری دنیا اس مصیبت سے نبردآزما ہونے کیلئے متحد اور متفق ہو چکی ہے ایسے میںہمیں بھرپور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ جس میں عوام کی راہنمائی کی جائے حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ ذاتی سکور برابر کرنے اور گلے شکوئوںکے بجائے پوری ایمانداری دیانتداری اور صدق دل سے پاکستان کے مفادمیں کام کیا جائے۔
خاص طور پر اس وقت صحافتی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ حکومت پر شوق سے تنقید کریں لیکن اگر آپ صحافی برادری کی نمائندگی کر رہے ہیں تو ذاتی تحفظات اور مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں ، طنز و تشنیع کے بجائے مثبت انداز کو اپنائیے۔

محمد شریف تاج

محمد شریف تاج

epaper

ای پیپر-دی نیشن