علماء کرام کی قدر اور کرونا کو قابو کریں!!!!
فواد چودھری خیالات کے اظہار میں کنجوسی نہیں کرتے کھلے الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ انداز مناسب اور بھلا معلوم ہوتا ہے جبکہ بعض معاملات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حد عبور کی گئی ہے۔ خیالات کے اظہار کی آزادی نہایت اچھی بات ہے اور انسان کو اپنے جذبات ایمانداری کے ساتھ بیان کرنے چاہییں۔ صاحب اقتدار یہ کام کریں تو اور بھی اچھا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ پھر دوسروں کو سننے کے لیے اپنی قوت سماعت کو بھی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب صاحب اقتدار بولتے ہیں تو عوام سے بھی آوازیں اٹھتی ہیں ایک بات کے جواب میں عوام کی طرف سے مختلف انداز میں جواب سامنے آتے ہیں یوں اہم افراد کی قوت سماعت کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ وہ کوئی بحث شروع کرنے یا کسی بھی معاملے میں اظہارِ خیال کرنے کے بعد دوسروں کی رائے کا بھی احترام کریں اور انہیں بھی عزت دیں۔ جہاں تک فواد چودھری کا تعلق ہے اس بات کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے کہ وہ کابینہ میں رہتے ہوئے بھی حکومتی کارکردگی پر گھما پھرا کر بات کرنے کے بجائے واضح موقف اختیار کرتے ہیں پنجاب حکومت کی کارکردگی بارے انہوں نے بہت پہلے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ سیاسی معاملات پر بات کرتے ہوئے وہ عوام کی نمائندگی و ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ کئی معاملات پر بات کرتے ہوئے وہ جذباتی بھی ہوتے ہیں یوں معاشرے کا بہت طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ انکی تضحیک اور دل آزاری ہوئی ہے۔ یہ طرز عمل بھی درست نہیں ہے۔ بالخصوص مذہبی طبقے کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں ہے۔ مذہبی معاملات خاصے نازک ہوتے ہیں اور مذہبی شخصیات کے ساتھ لوگوں کی وابستگی اور لگاؤ بہت گہرا ہوتا ہے یہ ہماری روایات کا حصہ ہے۔ ایسے معاملات میں احتیاط اور نرم زبان کا استعمال زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی وزیر سب کو جاہل کہنا شروع کر دے یہ تو کھلم کھلا جنگ ہے۔ حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہر کسی کے ساتھ الجھاؤ پیدا کیے رکھے۔ بگڑے کاموں کو سلجھانا اور ناراض لوگوں کو ملانا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر حکومت خود ہی اپنے لوگوں سے جنگ شروع کر دے تو عوامی سطح پر بے چینی پھیلنا فطری امر ہے۔ گذشتہ دنوں بھی فواد چودھری نے ٹویٹ کیا کہ ?"رجعت پسند مذہبی طبقے کی جہالت کی وجہ سے کرونا کی وبائ پاکستان میں پھیلی اب ہمیں کہتے ہیں اللہ کا عذاب ہے توبہ کریں، اللہ کا عذاب جہالت ہے جو ان لوگوں کی صورت میں ہم پر مسلط ہے، علماء جو علم اور عقل رکھتے ہیں اللہ کی نعمت ہیں ان کی قدر کریں لیکن جہلاء کو عالم کا درجہ دیناتباہی ہے"
اب یہاں الفاظ کا چناؤ انتہائی نامناسب ہے۔ وائرس نہ تو علماء نہ بنایا نہ انہوں نے اسے دنیا میں پھیلایا نہ علماء نے اسے بارڈرز کے ذریعے ملک میں آنے کا راستہ دیا نہ علماء اسے ائیرپورٹ کے ذریعے ملک میں لے کر آئے۔ بارڈرز اور ہوائی اڈے حکومت کے قابو اور زیر نگرانی کام کرتے ہیں وہاں علماء کا حکم نہیں چلتا بلکہ علمائ کی بڑی تعداد کو تو ان ہوائی اڈوں پر کبھی جانے کا موقع ہی نہیں ملا ہو گا جو گئے بھی ہوں گے ان کا سفر صرف اور صرف سعودی عرب تک محدود ہو گا جب وہ عمرہ یا حج کے سفر پر گئے ہوں گے یوں ہوائی اڈوں کے ذریعے وائرس کے پاکستان داخلے میں علماء کے بجائے ان کی غلطی ہے جو وہاں کام کر اور نگرانی کر رہے ہیں اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کافی ہیں۔ کون عالم ہے اور کون جاہل اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار فواد چودھری سمیت کسی کو نہیں ہے۔ علماء اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے ملک اور عوام کی بہت خدمت کی ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت بڑے ادارے چلا رہے ہیں۔ حکومتیں انہیں کیا دیتی ہیں لیکن سب سے پہلے اٹھ کر انہیں ہی برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ملک میں سب سے آسان کام مذہبی طبقے پر تنقید ہے روشن خیال آتے ہیں تو ان کا نشانہ بھی مولوی ہوتے ہیں جمہوریت پسندوں کو بھی یہ طبقہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہم نے انہیں دیا ہی کیا ہے کب حکومت نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا ہے، کب انکی ذہنی استعداد اور سائنسی علوم پر عبور کے لیے مدد کی گئی ہے کب انہیں نیک نیتی کے ساتھ حکومتی سرپرستی ملی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مدارس کے طلبا پرھنے لکھنے میں کسی سے کم نہیں ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ انہیں صلاحیتوں کے اظہار کے یکساں مواقع کبھی نہیں ملے۔ فواد چودھری کی وزارت نے انہیں کتنے مواقع فراہم کیے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ان کی سرپرستی کی جائے۔ دنیاوی علوم کی طرف راغب کیا جائے، مساجد کے خادمین کے ساتھ بھی سکولوں، کالجوں اور جامعات کے اساتذہ کی طرح برتاؤ کیا جائے۔ ان کے نتائج بھی مختلف ہو جائیں گے۔ اچھے برے لوگ ہر معاشرے اور ہر شعبے میں موجود ہیں چند ایک کی سخت سوچ کو بنیاد بنا کر سب کو جاہل کہنا کہاں کا انصاف ہے۔ نظام کو بہتر بنائیں، طرز عمل پر نظر ثانی کریں اس ملک کے عوام کو گلے لگائیں، محبت سے پیش آئیں اپنا رویہ بدلیں گے تو عوام کو بھی بدلا ہوا پائیں گے۔
جہاں تک کرونا وائرس کا ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ اگر خدانخواستہ متاثرین کی تعداد اسی تیزی کے ساتھ بڑھتی رہی تو کیا ہو گا۔ کرونا کے حملوں سے عوام کو بچایا جائے یا بھوک سے مرنے سے بچایا جائے۔ ہمارے آگے بھی تباہی ہے اور پیچھے بھی تباہی ہے۔ دونوں طرف اموات کا خطرہ ہے۔ اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق یہ اندازہ مشکل ہو رہا ہے کہ کم جانی نقصان کس طرف ہے۔ کرونا کی وجہ سے بھی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور فاقوں سے بھی اموات ہوں گی۔ ہر دو صورتوں میں نقصان ہے۔ وائرس کا پھیلنا تشویشناک ہے۔ عوام کو بھی ذمہ داری دکھانا ہو گی۔لاک ڈاؤن پر اس انداز میں عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کی توقع حکومت کر رہی ہے۔ نقل و حرکت پر قابو پائے بغیر کرونا کا پھیلاؤ روکنا مشکل ہے۔ عوام ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرے گی تو حکومت کو انتہائی قدم اٹھانا پڑے گا۔