ہماری دنیا ویران ہوگئی ، حکومت ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان دے: والدین ڈاکٹر اسامہ
لاہور (رفیعہ ناہیداکرام) پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے پہلے ہیرو ڈاکٹر اسامہ ریاض کے والدین نے کہا ہے حکومت ملک بھر کے تمام ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس کو حفاظتی لباس فراہم کرے۔ ایک بچے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب پورا کرنے میں والدین کے کئی قیمتی سال اور بے پناہ وسائل صرف ہو جاتے ہیں۔ حکومت انکا تحفظ یقینی بنائے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ ڈاکٹر اسامہ کے والد محمد ریاض محکمہ لوکل گورنمنٹ گلگت بلتستان میں ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے گلوگیر آواز میں بتایا کہ میرا بیٹا انتہائی فرمانبردار، خوش مزاج، انکسار پسند اور لائق تھا، کچھ روز سے گلگت سے چند کلومیٹر دور جگلوٹ میں تفتان سے گلگت آنے والے زائرین کی سکریننگ کے علاوہ کووڈ 19کے مریضوں کے علاج پر مامور تھا، اس کی بیماری کی اطلاع مجھے اس وقت ملی جب میں اپنے آبائی علاقے چلاس میں کسی عزیز کی تعزیت کیلئے گیا، واپس آیا تو اس کو وینٹی لیٹر پر دیکھا۔ انہوں نے مزید کہاکہ جوان بیٹے کے انتقال سے بہت نڈھال ہوگیا ہوں مگر شکر ہے کہ میرا بیٹا شہادت کے رتبے پر فائز ہوا، اسکے جسد خاکی کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹا گیا، گارڈ آف آنر دیا گیا،شب معراج کو تدفین ہوئی۔اس کا دوسرا بھائی حارث ریاض انجینئر ہے اور دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ ڈاکٹراسامہ کی والدہ شاہدہ پروین گورنمنٹ گرلز سکول گلگت میںٹیچرہیں، انہوں نے زاروقطار روتے ہوئے بتایاکہ میں تو ہروقت اسے ہی یاد کرتی رہتی ہوں، میرا بیٹااپنی تصویر سے بھی زیادہ پیارا، گھر کی رونق اور میرے دل کاچین تھا ،ہماراسب سے چھوٹااور لاڈلا بیٹا تھا، اسکے جانے سے گھر خالی ہوگیا ہے‘میں اس کے لئے رشتہ ڈھونڈھ رہی تھیں، خود وہ بھی مذاق میں کہتا کہ اماں میں ڈاکٹر بن گیا ہوں بس اب میری شادی کردیں ۔ آخری روز بھی صبح آواز دی کہ اماں مجھے ایک منٹ میں ناشتہ دے دیںمگرپھر چائے کا کپ ادھورا چھوڑ کرجیکٹ پہنی اور بھاگ گیا اسے دو تین دن سے شدید تھکاوٹ اور نزلہ زکام تھا مگر فرصت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس پر توجہ نہیں دے سکاتھا، واپس آیا تو پھر کورنٹائن سے کال آگئی کہ ایک مریض بہت سیریس ہے، پھررات کو گیارہ بجے واپس پہنچا تو بہت ایگزاسٹ ہوچکا تھاصبح دیکھا تو بیہوش پڑا تھا، فوری طور پر سی ایم ایچ لے جایا گیا جہاں اسے فوری طورپر وینٹی لیٹر پر شفٹ کردیاگیااورتمام ڈاکٹر میرے بیٹے کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ، پوری قوم دعا ئیں کررہی تھی ، سب کہتے تھے سروائیو کرجائے گا مگر اب حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، اس کے بعد زندگی ویران ہوگئی ہے ۔ ڈاکٹراسامہ کے ماموں ڈاکٹر اعجاز احمد خان نے بتایا ڈاکٹروں کو حفاظتی بندوبست کے بغیر ڈیوٹی پر بھیجنا کسی سولجر کو بندوق کے بغیر محاذجنگ پر روانہ کردینے کے مترادف ہے۔