• news

آٹا چینی بحران: وزیراعظم رپورٹ منظر عام پر لے آئے

اسلام آباد (عتر ت جعفری، نوائے وقت رپورٹ)چینی اور آٹا کے ماضی قریب کے بحرانوں کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ، ان بحرانوں کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم نے پبلک کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کے بحران کے بڑے بینی فشریز وہ تھے جن کا سیاسی کلائوٹ تھا اور وہ فیصلہ سازی میں بھی ملوث تھے ، آٹے کے بحران کے حوالے سے کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس کی بڑی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے منصوبہ فقدان تھا، ڈاکٹر شہباز گل کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی سفارش پر ایک انکوائری کمشن بنا دیا گیا ہے جو فرانزک آڈٹ کر رہا ہے کمشن25اپریل تک یہ آڈٹ مکمل کر کے حکومت کو رپورٹ جمع کرائے گا ،وزیر آعظم عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو بھی پبلک کیا جائے گا ، چینی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ، شوگر ایکسپورٹ پالیسی سے فوائد حاصل کرنے والوں میں بااثر نامور سیاسی شخصیات شامل ہیں،وزیراعظم کی مزید 10شوگر ملزکا فرانزک کرانے کی ہدایت کردی۔ حکومت کی چینی پر دی جانے والی سبسڈی کا بڑاحصہ بااثر شخصیات کے حصے میں آیا ، جہانگیر ترین گروپ نے چینی پر دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کیا، جہانگیر ترین کے جے ڈٰی ڈبلیو گروپ نے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے زائد کی سبسڈی لی، المعیز گروپ نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی ، مئی 2014ء سے جون 2019ء تک پنجاب حکومت کی جانب سے چینی برآمد پر سبسڈی دی گئی۔رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اسی عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو کااضافہ ہوا، شوگر برآمد کنندگان نے 3 ارب روپے کی سبسڈی اور قیمت میں اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا، چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا۔ پانچ سال میں حکومت کی جانب سے 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، آر وائی گروپ نے 4ارب ، جہانگیر ترین نے 3 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہنزہ گروپ نے 2ارب 80 کروڑ اور فاطمہ گروپ نے 2 ارب 30 کروڑ کی سبسڈی لی، شریف گروپ نے 1 ارب 40 کروڑ کی سبسڈی حاصل کی۔ اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔ شوگر ملوں کو سبسڈی ملنا، چینی کی صنعت کا سیاست میں اثرورسوخ ظاہرکرتا ہے۔ سیکرٹری فوڈسیکورٹی کے تحفظات کے باوجود ای سی سی نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی۔ ر پورٹ مین کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گندم کے بھران کی ایک طویل تاریک ہے ، دسمبر کے درمیان میں گندم کی قلت آئی اوت قیمت مین بھی اضافہ ہوا، جبکہ جنوری کے اندر قلت شدید ہوئی اور عوام میں بے چینی نظر آئی ،جس پر ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں کمیٹی بنی جس نے سیکرٹری فوڈ، مختلف وزارتوں کے افسروں ،ایف بی اار کے افسروں کے انٹر ویو کئے ۔ ٹیم نے صوبائی کیپیٹلز کے دورے بھی کئے ،ملک کو سال کے لئے 26.92ملین ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے حکومت اکتوبر سے اپنے سٹاک میں سے گندم جاری کرنا شروع کرتی ہے ،2018-19ء مین ملک کے اندر28-25ملین ٹن گندم دسیتیاب تھی ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم کی خریداری کے جو احداف مقرر کیئے گئے تھے ان کے مقابلے میں 2.5ملین ٹن کم گندم خریدی گئی،تاہم گندم دستیابی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے گندم کی رسد میں میں کوئی خاص پریشانی نہ تھی،چونکہ اس سال1.5ملین ٹن گندم کم پیدا ہوئی تھی اور کری فارورڈ سٹاک بھی کم تھے اور سرکاری خریداری میں بھی پینتیس فیصد کی کمی ہوئی تو یہ وزارت نیشنل فوڈسیکورٹی کی بنیاتی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ خطرے کی گھنٹی بجاتی اور حکومت کو فوری ضروری اقدامات کرنے کا مشورہ دیتی، گندم فاضل سٹاک ماضی کے سالوں میں برآمد ہوتے رہے ہیں ،2019.20میں کچھ زیادہ گندم برآمد نہیں ہوئی تاہم اس کی برآمد نے مارکیٹ پر اثر ڈالا اس سے گندم کا قومی ذخائرہ تھاپر دبائو آیا اور مارکیٹ میں کنفیوژن اور افاہ سازی ہوئی، وزارت فورڈ سکیورٹی میڈیا میں پانچ لاکھ ٹن گندم کی برآمد کے بارے میںغلط خبروں کی تردید کرنے میں ناکام رہی جبکہ گند م محض ایک لاکھ تریسٹھ ہزار ٹن برآمد ہوئی تھی ،صوبوں اور پاسکو کی طرف سے کم مقدار میں گند م کی خریداری کی وجہ سے گندم کا بحران پیدا ہوا ،اس تمام وجوہات کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں کے لئے ساذ گار ٖفضا پیدا ہو گئی ،اس کے علاوہ صوبوں نے پاسکو سے گندم اٹھانے میں بھی تاخیر کی ،سپیشل برانچ پنجاب نے گندم کی قلت،آتا کی قیمت میں اضافہ، فوڈ کے محکمہ میں غلط کاریوں کے بارے میں اعلی حکام کو روپرٹس ارسال کی تھیں ٓٹے کے بحران کے دیگر ذمہ داروں میں نجی سٹاکسٹ ،اور فلور ملز شامل ہیں جنہوں نے قیمت میں اضافے میں کردار ادا کیا ،پنجان میں ان اجلاع مین جن کی سرحدیں سندھ اور کے پی کے ساتھ لگتی ہیں وہاں فلور ملز کی تعداد غیر متوازن طور پر ذیادہ ہے ،جیسے ضلع اٹک میں 41،راولپنڈی میں 127 اور رحیم یار خان میں 80فلور ملز ہیں ،فلور ملز محکمہ فوڈ کے ملازمین کی سازباز سے غلط کاموں میں ملوث ہوئیں ،تمام صوبوں کا فوڈ کے محکمے درست طور پر استوار نہیں ،،بنجاب کے محکمہ فوڈ پر دھیان دینے کی ضرورت ہے آتے کا بحران پالیسی اور پلاننگ کی سطھ پر ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ،یہ ناکامی وفاق اور صوبون دونون سطحوں پر ہوئی ،وزارت فوڈ کی جانب سے اگست2019میں میدہ اور سوجی برآمد کرنے کی اجازت کی کوئی وضاحت نہیں ،سیکرٹری فوڈ اس کی کوئی وجہ نہیں دے سکے،حکومت کو گندم کی درآمد کابروقت مشورہ نہ دینے ، اور ناکامی کی ذمداری سیکرٹری فوڈ ہاشم پوپلزئی پر عائد ہوتی ہے ،پاسکو کی طوف سے ہدف سے کم گندم کی خریداری کے زم دار سابق ایم ڈی پاسکو محمد خان کچھی ہیں ،صوبائی حکومتیں فلور ملز کو پوسٹ آڈٹ کریں، فلور مل مالکان نے پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی پورا نہ کرسکنے کی اہلیت کو جانتے ہوے فائدہ کمانے کیلئے مہم چلائی ،پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے صورتحال کے پیش نظرفیصلے نہیں لئے ،پنجاب میں گندم ٹارگٹ پورا نہ کر سکنے کی ذمہ داری سابقہ فوڈ سیکریٹری نسیم صادق ، سابقہ فوڈ دائیریکٹر ظفر اقبال پر عائد ہوتی ہے، پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری پر صورتحال کے پیش نظر فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں اقدامات نہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی جا سکتی، سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا ،کے پی کے میں میں گندم خریداری کے ٹارگٹ پورے نہ کرنے پر وزیر قلندر لودھی،سیکریٹری اکبر خان اور ڈائیریکٹرسادات حسین ذمہ دار ہیں ،چینی کے حوالے سے رپورٹ میں مذید بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2018میں چینی کی قیمت55.99روپے فی کلو گرام تھی جو جنوری2020میں 74-64روپے کلو گرام ہوئی ۔اس طرح چینی کی فی کلو قیمت میں 18.65روپے فی کلو اضافہ ہوا ،ملک میں گنا گذشتہ سال کے مقابلہ میں ذیادہ پیدا ہو تھا تاہم مارکیٹ میں کم پیداوار کی افوہ کی وجہ سے گنے کی قیمت سپورٹ پرائس سے 15فیصد ذیادہ رہی ،حکومت کے پاس شوگر ملز کی ایکسفیکٹری پرائس کو پرکھنے کو کوئی نظام موجود نہیں ،چینی کی قیمت جب بڑھنا شروع ہوئی وہ دسمبر 2018سے جون 2019 کا عرصہ ہے ، اس عرصہ میں جی ایس ٹی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ، جبکہ اسی عرصہ میں قیمت میں16روپے کلو کا اضافہ ہو گیا ،جبکہ چینی کی ایکس ملز پرائس میں اضافہ دسمبر 2018سے جون 2019ء میں ہوا ۔عام طور پر چینی ہول سیل ڈیلرز ایجنٹس کے ذریعے خریدتے ہیں،ملک میں قوانین کی مودگی کے باجود چینی کوسٹاک کرنے کا کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیاجاتا شوگر ملوں میں چینی ذخیرہ کرنے کا نظام موجود ہے کیونکہ ان کے گودام بڑے ہوتے ہیں،ملوں اور ہول سیل کی سطح پر ذخیرہ اندوزی تخمینہ صرف فرانزک آڈٹ سے ہی لگایا جاسکتا ہے ،اسی طرح ملز کے درمیان کارٹلز کا پتہ بھی فرانزک آڈٹ سے ہی لگایا جاسکتا ہے ، موصول ڈیٹا کے مطابق کچھ محدود ہاتھوں میں صنعت کا کنٹرول، چھ گروپس ہیں جو پاکستان میں چینی کی پیداوار کا 51فیصد کنٹرول کرتے ہیں ان جے ڈی ڈبلیو گروپ۔ آر وائی کے گروپ۔ المعیزگروپ۔ تاندلیہ والہ گروپ۔ شریف فیملی ملزاس کے بعد دوسرے گروپش شامل ہیں ۔ جے ڈی ڈبلیو گروپ کا چینی کی پیداوار میں حصہ 19.97 فیصد ہے جبکہ شریف فیملی کا حصہ 4.54فیصد ہے۔پی ایس ایم اے کی کال پر پچیس ملز نے ہڑتال کی اس سے یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ اجارہ داری کا ایک ثبوت ہے،شوگر ایڈوائزری بور ڈ کی سفارش پر دس لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دے دی گئی اس اجازت کے وقت چینی کی قیمت پچپن روپے فی کلو گرام تھی جیسے ہی چینی کی برآمد شروع ہوئی ملک میں چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی۔فوڈ سکیورٹی کے سیکرٹری نے چینی کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے صوبوں کو خط بھی لکھا مگر برآمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔اسی سال حکومت پنجاب نے تین ارب روپے کی چینی کی برآمد کے لیئے سب سڈی دی اس سب سڈی دی۔ کمیٹی نے رائے دی کہ برآمد کا کوئی جواز نہ تھاکیونکہ ملک میں گنے کی پیداوار کم رہنے کی توقع کی گئی تھی ، چینی کے برآمدکنندگان نے دو طریقوں سے فائدہ اٹھایا پہلا برآمد پر سب سڈی لی اور یہ کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ پر منافع کمایا، شوگر ایڈوائزری بورڈ چینی کی برآمد پر پابندی لگانے میں ناکام رہا جن ملزنے سب سڈی سے فائدہ اٹھایا ان میں جے ڈی ڈبیلو شوگر مل، ہنزہ شوگر مل، فاطمہ شوگر مل، المعیز ، اتحاد شوگر مل، ٹو سٹار شوگر مل، تھل انڈسٹریز، انڈس شوگر مل، آروائی کے مل، حسین شوگر مل، شیخو شوگر مل، ن شوگر مل، حدا شوگر مل، جہانگیر ترین کی ملکیت شوگر ملز نے سب سڈی کا 22.71فیصد حاصل کیا، شمیم احمد خان کی ملکیت شوگر ملز نے سب سڈی کا 16.46فیصد، مخدوم عمر شہر یار نے سب سڈی کا 18.37فیصد حاصل کیا،واضح رہے کہ اس گروپ کے حصہ داروں میں چوہدری منیر اور مونس الٰہی بھی شامل ہیں ۔ آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے۔ چینی بحران کیوں پیداہوا؟ انکوائری رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے انکوائری رپورٹ کے مطابق چینی برآمد کرنے اور برآمد پر سبسڈی دینے سے چینی کا بحران پیدا ہوا۔ پنجاب حکومت نے چینی پر تین ارب روپے کی سبسڈی دی سیکرٹری خوراک نے خبردار کیا تھا کہ 2019 میں چینی کی پیداوار میں کمی آئے گی مگر پھر بھی چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایکسپورٹرز کو دو فائدے ملے پہلا فائدہ تین ارب روپے کی سسڈی اور دوسرا فائدہ چینی کی قیمت میں اضافے کی صورت میں ملا۔ چینی بحران سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو 56 کروڑ روپے یعنی 22 فیصد سبسڈی دی گئی۔ چینی بحرا ن میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی لی۔ مئی 2014 سے جون 2019 تک پنجاب حکومت نے چینی کی برآمد پر سبسڈی دی اس عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ گزشتہ 5 سال میں چینی کی برآمد پر 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی آروائی گروپ نے چار ارب ، جہانگیر ترین نے تین ارب روپے، ہنزہ گروپ دو ارب 80 کروڑ روپے، فاطمہ گروپ دو ارب 30 کروڑ روپے، شریف گروپ ایک ارب 40 کروڑ روپے، اومنی گروپ 90 کروڑ روپے کی سبسڈی لی ای سی سی نے دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔ چینی بحران میں تیسرے نمبر پر فائدے میں مونس الٰہی کی کمپنیاں ہیں۔ انکوائری رپورٹ میں آٹے کے بحران کی وجوہات بھی سامنے آگئیں جس میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں گندم پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ مالی سال 2019-20 میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اور برآمد پر پابندی میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کاہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی ہے۔ چینی کی وجہ سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی سابق وزیر خوارک صاحبزادہ محبوب سلطان بھی گندم بحران میں ملوث ہیں۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری بھی آٹا بحران کے ذمہ دار قرار دیئے گئے۔ فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے ای سی سی کو گندم خریداری سے متعلق باخبر رکھا ملک میں گندم اور آٹا بحران فلور ملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت سے 13 دسمبر 2019 کو مسابقتی کمشن نے فلور ملز پر ساڑھے سات کروڑ روپ جرمانہ کیا فلور ملز ایسوسی ایشن نے جرمانے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین نے کہا ہے کہ تین ارب روپے میں سے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی مسلم لیگ ن کے دور میں دی گئی جس وقت مسلم لیگ ن نے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دی اس وقت میں اپوزیشن میں تھا میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی ایکسپورٹ کی ایکسپورٹ پہلے آئیں، پہلے پائیں کی بنیاد پرکی گئیں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ اسد عمر نے ای سی سی اجلاس میں کاہ تھا کہ پنجاب حکومت سبسڈی مانگنے آگئی ہے انہوں نے کہا تھا پنجاب حکومت ہی گنے کی قیمت مقرر کرتی ہے اگر گنے کی یمت کی وجہ سے چینی کی قیمت زیادہ بنتی ہے تو پنجاب حکومت فوڈ سبسڈی اٹھائے میری ملز کی تین ارب روپے کی سبسڈی بنتی تھی مسلم لیگ ن کے دورمیں مجھے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دی گئی سبسڈی دینے کی وجہ ہوتی ہے کسی کو نوازا نہیں گیا سبسڈی اس لئے دی گئی کہ ملک میں چینی زیادہ بن گئی تھی ملک میں چینی کی قیمت سے 80 لاکھ ٹن زیادہ تھی اس کو ایکسپورٹ کرنا ہی تھا انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں گری ہوئی تھیں شوگر ایسوسی ایشن اس معاملے پر بیٹھے گا اور اپنا موقف دے گا رپورٹ میں جو باتیں کی گئیں وہ بالکل غلط ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی نے چینی کی برآمد پر تحقیقاتی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ لوگ اس پر بات کرتے ہوئے حقائق کو ذمہ داری سے پیش کریں گے۔ مونس الٰہی نے ایک بیان میں کہا کہ میرے پاس رحیم یار خان شوگر ملز کے صرف بالواسطہ طور پر شیئر ہیں اور میرا اس ملز کی انتظامیہ میں کوئی عمل دخل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ رحیم یار خان شوگر ملز کا چینی کی قومی برآمد میں صرف 3.14 فیصد حصہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن