کروناـ: عالمی طاقتیں ایکسپوز ہو گئیں
وزیراعظم عمران خان موٹرویز بننے ، میٹروبسیں چلنے، انڈرپاسز ، فلائی اوور اور یورپی طرز کے عالی شان پل بننے اور انکے اس دور کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی طرف سے افتتاح ہونے پر کڑھتے اور ان سب کو فضول اور عیاشی قرار دیتے تھے جسے ان کے مخالفین تنقید برائے تنقید اور حسد سے تعبیر کرتے تھے ۔عمران خان کا اس وقت اور آج بھی موقف ہے کہ ہمیں قومی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر پلاننگ کرنی ہے۔وہ کہتے رہے ہیں کہ سب سے پہلے انسانی صحت مقدم ہے ، کارآمد شہری وہی ہو سکتا ہے جو جسمانی و ذہنی طورپر تندرست و توانا ہو۔ ایسے شہری کی صلاحیتوں میں تعلیم کے ذریعے نکھا رپیدا کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک اور معاشرے کی صحت کے بعد ترجیح ہے۔آج پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو احساس ہو رہا ہے کہ صحت کے معاملے میں اس سے کوتاہی ہوئی ہے۔ کرونا وائرس نے ناگزیر طبی سہولتوں کے حوالے سے امریکہ و برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سمیت بلاامتیاز ہر ملک کو ایکسپوز کرکے رکھ دیا ہے۔امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے ،اپنے جدید اسلحہ اور مضبوط معیشت کے بل بوتے پر وہ دنیا پر مسلط ہے ،کسی بھی ملک کو تسخیر کرنے کے زعم میں مبتلاہے مگر کرونا نے اس کا ساراغرور خاک میں ملا دیا ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو کرونا کی آفت سے بچانے سے قاصر ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کے باعث جہاں ابتدائی طور پر عالمی سطح پر فیس ماسک کی قلت دیکھی گئی، وہیں بعدازاں دنیا کو سینیٹائزر کی بھی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں پاکستان، امریکا، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور جرمنی جیسے ممالک میں جہاں ماسک اور سینیٹائزرز کی قلت رہی، وہیں دیگر طبی آلات کی بھی عالمی سطح پر شارٹیج دیکھی گئی،اب صورتحال قدرے بہتر ہے۔تاہم سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ دنیا کو کورونا وائرس کے مریضوں کی زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے طبی آلے وینٹی لیٹر کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ان میں امریکا، اٹلی اور برطانیہ جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ وہاں کی حکومتیں پریشان ہیں کہ اگر یوں ہی کورونا کے مریض بڑھتے گئے تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔اس وقت اگرچہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ وینٹی لیٹرز کی تعداد امریکا میں ہی ہے، تاہم پھر بھی امریکا کے پاس موجود وینٹی لیٹرز کی تعداد کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کے حساب سے انتہائی کم ہے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ایک سائنسی جرنل کیمطابق امریکا میں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے 34 وینٹی لیٹر موجود ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے، دوسرے نمبر پر جرمنی ہے جہاں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے 29 وینٹی لیٹر موجود ہیں، اسی طرح ہر ایک لاکھ افراد کے 12 وینٹی لیٹرز کے ساتھ اٹلی تیسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے وینٹی لیٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے، جس کے بعد تمام ممالک کو تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو فیس ماسک، سینیٹائزر اور وینٹی لیٹرز کی قلت کا سامنا ہے، وہیں دنیا کے تمام ممالک کو تربیت یافتہ طبی ماہرین اور طبی عملے کی قلت کا بھی سامنا ہے۔امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کے مطابق اس وقت امریکا میں محض ایک لاکھ 60 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں جب کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 95 لاکھ تک جا سکتی ہے۔وینٹی لیٹرز کی تعداد کے حوالے سے پاکستان کا شمار تین میں ہے نہ تیرہ میں ہے۔ادھر پاکستان میں بھی بُری حالت تو ہے مگر اللہ کا شکر ہے صورتحال سرِدست قابو میں دکھائی دیتی ہے۔ آج حکومت پروہ اپوزیشن طعن و تشنیع کے تیر برسا رہی ہے جو کم و بیش پینتیس چالیس سال حکومت میں رہی ۔ عالی شان پلازے کھڑے کر دیئے، شاہراہیں، پُل بنائے ، رنگ برنگ منصوبے چلائے مگر انسانی صحت کی طرف توجہ نہ دی۔ اس طرف توجہ دی ہوتی تو اپنے علاج کیلئے صدر زرداری دبئی اور شریف برادران لندن نہ جایا کرتے۔ سندھ میں ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار شہریوں کیلئے ایک بیڈ ہے۔ پنجاب میں صورت سندھ سے بہتر ہو گی مگر ضرورت کے مطابق وہاں بھی ہسپتال اور بیڈ نہیں ہیں۔ دکھاوے کے منصوبے جائیدادیں اور محلات تعمیر کرنے لئے بنائے گئے۔اب کسی کی ٹی ٹیز بول رہی ہیں، کسی کے جعلی اکاؤنٹ اسے جواب دہ بنا رہے ہیں۔وزیراعظم کی سوچ اور فلسفے کے مطابق سب سے پہلے ترجیح صحت کو دینا ہو گی۔ دنیا کو اب تک اندازہ نہیں تھا کہ اس قسم کا عذاب بھی نازل ہو سکتا ہے ۔اب امکانات کو مدنظر رکھ کر ہر ملک کو منصوبہ بندی کرنی ہو گی تاکہ کل خدانخواستہ ایسی صورت حال پیش آئے تو آج کی طرح میڈکل سائنس اور طبی سہولتیں بے بس نہ ہوں۔