ہائیکورٹس کے فیصلے کالعدم، رہا ہونے والے قیدی دوباری گرفتار کئے جائیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی سفارشات کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کالعدم قرار دے دیئے، اور ہائی کورٹس سے رہا ہونے والے تمام قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا بھی حکم جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے عدالت عالیہ سے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر درخواست کو دفعہ 184(3) کے تحت قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سنگین جرائم، نیب اور منشیات کے مقدمات میں دی گئی ضمانتیں بھی منسوخ کردیں۔ خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے سبب غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر 408 قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات سے 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں، 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی امین احمد نے تحریر کیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ قیدیوں کی سزا معطل کر نے کے لیے قانون میں طریقہ کار واضح ہے، ہائی کورٹ ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر اجتماعی ضمانتیں نہیں دے سکتی۔ قانون میں خواتین، کم عمر یا بیمار اور ذہنی مسائل کے شکار افراد کی رہائی کا طریقہ کار موجود ہے۔ اسی طرح مجرمان کی بھی سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے کا میکانزم موجود ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایسے ملزم جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہیں وہ رہائی کے مستحق ہوں گے اس کے علاوہ رہائی کی خصوصی رعایت کا اطلاق خواتین اور بچوں پر بھی ہوگا جبکہ ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے ملزمان بھی رہائی کے مستحق ہوں گے، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اعلان کردہ ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر قیدیوں کی رہائی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ کیوں کہ عالمی تنظیموں کی جانب سے رکن ممالک کو جاری کی گئی ہدایات میں ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئی کہ جس میں رکن ممالک کو اپنی جیلیں خالی کرنے کا کہا گیا ہو۔ لہٰذا نافذ کردہ حکم ایک غلط سمت کے احاطے پر قائم کیا گیا، ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں، حالات کیسے بھی ہوں قانون کا قتل نہیں ہونا چاہیے،عدالت نے سندھ اور خیبرپی کے حکومتوں کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کالعدم قرار دی اور نشاندہی کی کہ خیبرپی کے اور پنجاب میں قیدیوں کی رہائی کا کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا،فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ اس صورت میں ملزم کو رہا کرسکتی ہیں کہ اگر اسے وارنٹ کے بغیر گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہو اور اس نے کوئی سنگین جرم نہ کیا ہو اور اس کے لیے بھی پہلے پراسیکیوشن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے گا،عدالت نے جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی کے جواب میں کہا کہ دنیا میں سوائے چند ممالک جہاں جرائم کی شرح خاصی کم ہے زیادہ تر جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں اور متاثرہ شخص کی غیر موجودگی میں جیلیں محفوظ ہیں،اس لیے بجائے قیدیوں کو رہا کرنے کے نئے آنے والے قیدیوں کی اسکریننگ کرنا زیادہ بہتر ہے،ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو بادشاہ کی طرح تخت پر نہیں بٹھایا جاتا کہ جو اس کی خواہش ہو وہ کرے بلکہ ہر لحاظ سے وہ آئین و قانون کی پاسداری کا پابند ہے،ہائی کورٹ کی جانب سے ایک مجرمانہ متفرقہ درخواست پر دائرہ اختیار سے بڑھ کر ایسے فیصلے دینے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں کہ جس کا اثر سماجی زندگی کے ہر پہلو پر پڑے۔