چیف جسٹس آف پاکستان حکومتی کارکردگی سے نا خوش
نوازرضا
وزیر اعظم عمران خان نے آٹا اور چینی کے بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پبلک کر دی جس سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے گویا بھڑوں کے چھتہ میں ہاتھ ڈال دیا ہے ایک طرف حکومت اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ حاصل کر رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن آٹا اور چینی بحران کی ذمہ داری وزیر اعظم پر ڈال کر ان کے استعفاٰ کا تقاضا کر رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن انکوائری کمیشن کی حتمی رپورٹ آنے سے قبل ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ سے اپنے اپنے مطالب نکال رہی ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک تو کر دی ہے لیکن اس تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے انہیں کئی’’ دریا‘‘ عبور کرنا پڑیں گے جو آنے والے دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامہ پر اثر انداز ہوں گے۔ وزیر اعظم کو اپنے ان دوستوں کی رفاقت سے محروم ہونا پڑے گا جنہوں نے کل تک ان کی ’’سیاسی بادشاہت ‘‘ قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔آج کے دوست کل کے ’’سیاسی مخالف ‘‘ بن سکتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر نئی صف بندی ہو سکتی ہے پارلیمانی نظام میں اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر قائم ہونے حکومتوں کا کسی وقت بھی شیرازہ بکھر سکتا ہے ’’سبسڈی ‘‘کے نام پر بہتی گنگا سے فائدہ اٹھانے والے ’’شوگر فافیا ‘‘ کے جن ’’پردہ نشینوں ‘‘ کے نام سامنے آئے ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق حکمران جماعت پی ٹی آئی سے ہے جب کہ کچھ خاندانوں کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ بہر حال ’’شوگر مافیا ‘‘ کا تعلق سیاسی خاندانوں سے جو پچھلے تین چار عشروں سے چینی کی پیداوار پر مختلف ادوار میں مراعات لیتے رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کے بحران کے بڑے بینی فشریز کا سیاسی پس منظر ہے اور فیصلہ سازی میں ان کا کلیدی کردار ہے جس کی وجہ سے ’’شوگرمافیا ‘‘ ملکی سیاست میں طاقت ور ہو گیا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد بھی حکومت کی کارکردگی سے ’’ناخوش‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کورونا وائرس اور دوسرے مسائل سے کیا نمٹے گی؟ حکومت کے لئے تو آٹے چینی کا اتنا بڑا اسکینڈل کھڑا ہوگیا ہے۔ آٹاا ور چینی بحران پر ایف آئی اے رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے فوری کارروائی کی ، وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ تو نہ کی، البتہ کچھ وزراء کے قلمدان تبدیل کر دئیے گئے ہیں اور کچھ نئی تقرریاں کی گئی ہیں کچھ مشیروں اور معاونین خصوصی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران وفاقی کابینہ میں دوسری بار تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کرکے انہیں اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا ہے ان کی جگہ فخر امام کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق بنا دیا مخدوم خسرو بختیار نے وزیر اعظم کے نام خط میں اپنا استعفاٰ بھجوا دیا اور کہا ہے کہ حالیہ آٹا اور چینی بحران میں میرا نام لیا جا رہا ہے، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، ذاتی مفاد کے لیے کبھی ای سی سی کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ حکومتی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مخدوم خسرو بختیار کے استعفاٰ کی تردید کر دی ہے۔ عبدالرزاق داؤد کو مشیر صنعت وپیداوار اور شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر بابر اعوان کی پروموشن ہوئی ہے وہ کافی دنوں سے کسی بڑے منصب پر تقرری کے منتظر تھے بہر حال اب وزیراعظم نے انہیں مشیر برائے پارلیمانی امور بنا دیا ہے۔تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا،شہباز گل نے ٹویٹ کے ذریعے جہانگیر خان ترین کو چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹانے کے فیصلے کی بھی اطلاع دی ہے جب کہ جہانگیر ترین کا موقف ہے کہ وہ اس ٹاسک فورس کے کبھی چیئرمین ہی نہیں ر ہے یہ سب کچھ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا کیا دھرا ہے جو شروع دن سے ان کے خلاف تھے۔ آٹااور چینی بحران پر کی جانے والی ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کی باز گشت وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی سنی گئی، وزیر اعظم نے جہاں آٹا اور چینی کے بحران کے ذمہ داروں سے کوئی رعایت نہ برتنے کے عزم کا اظہار کیا ہے وہاں دو وفاقی وزراء مراد سعید اور اسد عمر کے درمیان اقتصادی رابطہ کمیٹی سے چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے حوالے سے گرما گرمی بھی ہوئی ہے تاہم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے دونوں کو خاموش کرا دیا ۔وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آٹا اور چینی کے بحران کے تناظر میں پنجاب میں بھی اہم تبدیلیوں کا اشارہ دیا ہے۔ آٹا اور چینی بحران پر ابتدائی رپورٹ آنے سے جہاں وزیر اعظم کو کچھ اقدامات لینے پر مجبور کر دیا ہے وہاں پی ٹی آئی کے اندر بھی نئی صف بندی ہونے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی میں جہانگیرترین کو شروع سے دن سے غیر معمولی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن حکومت سازی کے بعد عمران خان اورجہانگیر ترین کے درمیان ’’فاصلے‘‘ قائم ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے یہ فاصلے پیدا کرنے میں پی ٹی آئی میں ان کے ’’حریفوں ‘‘ کا کردار بھی ہو لیکن طاقت ور بیورو کریسی نے عمران خان اورجہانگیرترین کے درمیان حائل خلیج وسیع کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی ان کا ’’سیاسی قد کاٹھ ‘‘ کم کرنے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے ۔ یہ اختلافات پہلی بار اس وقت سامنے آئے جب عمران خان نے جہانگیر ترین کو اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی سے نکال دیا ۔ آٹا اور چینی بحران پر تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔ جہانگیر ترین کے عمران خان سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دونوں کے درمیان جلد تعلقات بہتر ہو جائیں گے جہانگیر ترین نے تحقیقاتی رپورٹ کو سیاسی ہے اور ان کی ذات پر حملہ قرار دیا ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آٹاو چینی بحران پر تحقیقات کرنے والے کمشن کے ارکان کو دھمکیوں کا ذکر آیا وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو چینی غائب کرنے کی دھمکی دی گئی ہے جب کہ جہانگیر ترین نے کہا کہ وزیر اعظم کو کسی نے بھی دھمکی نہیں دی ۔مسلم لیگ (ن ) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ عہدوں کی ردوبدل اور ایک عہدہ لے کر دوسرا دے دینا پاکستان کے عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چینی بحران پر انکوائری رپورٹ پنجاب کے ’’پراسرار‘‘کردار کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں چینی پر دی جانے والی سبسڈی کا بھی ذکر ہے انہوں نے کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں تو وہ بھی تحقیققاتی کمشن کے سامنے جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ وفاقی کابینہ میں ردو بدل پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی ’’کپتان‘‘ کی تعریف کرنے کا جواز تلاش کر لیا ہے انہوں نے کہا کہ’’ حکومت میں کوئی دو گروپ نہیں، کپتان نے صرف اپنی فیلڈنگ بدلی ہے، تحقیقاتی رپورٹ وقت سے پہلے آگئی 25 اپریل2020ء کو آتی توبہتر تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ نے بھی اپوزیشن کو اپنا سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع دے دیا ہے ۔ پچھلے دنوں جہانگیر ترین کے چوہدری برادران(شجاعت حسین ،پرویز الہی) سے تعلقات میں اس حد تک اضافہ ہو گیا جسے اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ جہانگیر ترین کے’’ چوہدری برادران ‘‘ سے بڑھتے ہو ئے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا اسلام آباد میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ جہانگیر ترین پنجاب میں نئی سیاسی صف بندی میں مصروف ہیں ۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات پر کاری ضرب لگائی ہے ۔ اسلام آباد میں یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ جہانگیر ترین ، میاں شہباز شریف اور چوہدری برادران سے ملک کر پنجاب میں کوئی نیا سیاسی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں جس کی وزیر اعظم نے پیش بندی شروع کر دی ہے ۔ کورونا وائرس کی دھول بیٹھنے کے بعد ہی صورت حال واضح ہو جائے گی کہ سیست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔