• news
  • image

نئی کنسٹرکشن پالیسی اور شوگر سکینڈل

احسان الحق
ihsan.nw@gmail.com

پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث تمام تر صنعتی و تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے کے باعث ملک بھر میں ایک مایوسی کی لہر دیکھی جا رہی تھی اور شہریوں کو اپنے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو بھی خطرات لاحق تھے جس کے باعث بیشتر شہریوں میں تشویش کی لہر دیکھی جا رہی تھی ایسے میں وزیر اعظم عمران خان نے عوامی توقعات کے عین مطابق ایک نئی کنسٹرکشن پالیسی کا اعلان کر کے پاکستانیوں میں امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے جس سے توقع ہے کہ عرصہ دراز سے اس انڈسٹری میں کوئی بڑی کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے سے اس انڈسٹری کے زوال پذیر ہونے کے جو خدشات پیدا ہو گئے تھے وہ اب دم توڑ گئے ہیں اور توقع ہے کہ لاک ڈائون کے بعد رحیم یار خان سمیت پاکستان بھر میں کنسٹرکشن انڈسٹری ایک نئی امید اور امنگ کے ساتھ بحالی کی طرف بڑھے گی جس سے اس انڈسٹری میں عرصہ دراز سے طاری جمود کا خاتمہ ہو سکے گا ۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کی گئی نئی کنسٹرکشن پالیسی کی خاص بات جہاں اس شعبے کو اب ایک ’’انڈسٹری‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے وہیں اس انڈسٹری میں ایک سال تک کئی گئی سرمایہ کاری بارے پوچھ گچھ نہ ہونے اور اس انڈسٹری پر عائد گین ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکس کا خاتمہ یقیناً وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک انتہائی درست اور بروقت فیصلے ہیںاور بزنس کمیونٹی اس توقع کا بھی اظہار کر رہی ہے کہ اس طرح کی ’’بزنس فرینڈلی‘‘ پالیسیاں دیگر انڈسٹریز جس میں خاص طور پر ٹیکسٹائل اور ایگریکلچر انڈسٹری شامل ہیں کیلئے بھی جاری کی جائیں گی جس سے پاکستان ترقی کی ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہونے سے حقیقی معنوں میں ایشین ٹائیگر بن کر ابھرے گا ۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ پاکستان میں کنسٹرکشن کا شعبہ پچھلے کئی سالوں سے زوال پذیر تھا اور اس شعبے پر عائد بھاری ٹیکسز کے باعث یہ شعبہ تقریباً بند ہونے کے قریب تھا جس سے لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان معاشی طور پر بھی کمزور ہو سکتا تھا تاہم اب توقع ہے کہ نئی مثبت کنسٹرکشن پالیسی کے باعث اس سے ملحقہ دوسری انڈسٹریز جن میں خاص طور پر سیمنٹ اور ماربل انڈسٹری شامل ہے ، بھی پروان چڑھیں گیں جس سے پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا ۔کنسٹرکشن انڈسٹری جیسی بہترین پالیسی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وفاقی بجٹ 2019-20ء میں پاکستان کے جن بڑے برآمدی شعبوں کا زیرو ریٹڈ اسٹیٹس ختم کیا گیا تھا اسے بھی فوری طور پر بحال کریں تاکہ پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ سامنے آ سکے ۔یاد رہے کہ وفاقی بجٹ 2019-20ء میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت پاکستان کے پانچ بڑے برآمدی شعبوں جن میں ٹیکسٹائلز ،لیدر ،سرجیکل ،سپورٹس اور کارپٹ انڈسٹریز شامل ہیں ان کا زیرو ریٹڈ اسٹیٹس ختم کر دیا گیا تھا جس کے باعث پاکستانی برآمدات میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے ۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان تمام انڈسٹریز کا زیرو ریٹڈ اسٹیٹس فوری طور پر بحال کرے تاکہ کرونا وائرس کے تحت پاکستانی برآمدات میں ہونے والی غیر معمولی کمی کو فوری طور پر بہتر کیا جا سکے جس سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر بہتر ہونے کے باعث قرضوں کا بوجھ بھی کم ہونے میں بڑی مدد مل سکے گی ۔
وزیر اعظم کی ہدایت پر شوگر سکینڈل کے بارے میں جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کی اہم ترین نقد آور فصل کپاس کے ساتھ رواں رکھے جانے والے سوتیلی ماں جیسے سلوک کو اب ختم کرے اور پاکستان بھر کے کاٹن زونز میں گنے کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ کاٹن زونز میں قائم شوگر ملز بھی بند کروائے تاکہ پاکستان میں کپاس کی کاشت دوبارہ بہتر ہونے کے باعث پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو سکے ۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ پچھلے کئی سالوں سے ایک طاقت ور شوگر لابی نے پاکستان میں کراپ زوننگ قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف کاٹن زونز میں بڑے پیمانے پر گنے کی کاشت شروع کرا رکھی تھی بلکہ کاٹن زونز میں غیر قانونی طور پر نئی شوگر ملز کے قیام کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود شوگر ملز کی پیداواری صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ کر رکھا تھا جس سے پاکستان میں کپاس کی کاشت پہلے کے مقابلے میں تقریباً آدھی رہ جانے کے ساتھ ساتھ گنے کی فصل کے باعث پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے روئی کا معیار بھی متاثر ہو رہا تھا جس سے پاکستان کی کاٹن ایکسپورٹس میں ہر سال کمی واقع ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو سالانہ کروڑوں روپے مالیتی روئی بھی درآمد کرنی پڑی تھی تاہم اب توقع ہے کہ اس طاقت ور شوگر لابی کے تمام ’’مقاصد‘‘ عیاں ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں کپاس کی بھر پور کاشت کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں تاکہ پاکستان میں ایک بار پھر کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 1 کروڑ 50 لاکھ بیلز تک ہو سکے جو اس وقت 1 کروڑ بیلز تک گر چکی ہے۔
پاکستان میں پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے کروناکے موذی وائرس کی وجہ سے پچھلے دو تین روز سے غیر معمولی شدت دیکھی جا رہی ہے اور ضلع رحیم یار خان میں کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں صرف 2 روز کے دوران 23 نئے مریض سامنے آئے ہیں جس سے ضلع بھر میں خوف ہراس کی فضاء پھیل گئی ہے ۔رحیم یار خان میں کرونا پازیٹو آنے والے زیادہ تر ایسے شہری شامل ہیں جو یا تو کچھ عرصہ قبل ایران سے واپس آئے ہیں یا ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے تاہم اس حوالے سے سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مشتبہ قرار دیئے جانے کے باوجود یہ لوگ قرنطینہ میں جانے کی بجائے مسلسل تبلیغ میں مصروف رہے جس کے باعث رحیم یار خان میں یہ مرض تیزی سے پھیلنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مشبتہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ بلڈ ٹیسٹ کروائیں تاکہ ان کی رپورٹس آنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کیے جا سکیں ۔معلوم ہوا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر تین تعلیمی اداروں اسلامیہ یونیورسٹی رحیم یار خان کیمپس ،خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی اور دانش سکول میں قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں لیکن ان میں مشبتہ مریضوں کی تعداد ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے جو ایک انتہائی تشویشناک بات ہے ۔ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ایران سے واپس آنے والے زائرین ،سعودی عرب سے عمرہ ادائیگی کے بعد واپس آنے والے شہریوں اور تبلیغی جماعت کے اراکین کو ان قرنطینہ مراکز میں منتقل کرے تاکہ کرونا وائرس کے پھیلائو کو ممکنہ حد تک روکا جا سکے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن