35 اضلاع کیلئے پشاور میں ایک تشخیصی سینٹر
راجہ محمد منیر خان
rajamunirkhan@yahoo.com
کے پی کے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 500 سے تجاوز کرگئی ہے جن میں ضلع ایبٹ آباد میں 16 کیس شامل ہیں۔ اگر ڈویژن کی سطح پر تشخیصی سنٹر میں ٹیسٹ کی سہولت ہوتی تو کئی گنا زیادہ مریض سامنے آجاتے ۔تشخیصی سنٹرز نہ ہونے کے باعث آنے والے دنوں میں اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے کرونا کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت کے پی کے کے 35 اضلاع کیلئے پشاور میں ایک تشخیصی سنٹر پشاور خیبر میڈیکل کالج کام کر رہا ہے جو موجودہ صورتحال میں ناکافی ہے۔ این ڈی اے نے ایبٹ آباد اور ڈی آئی خان میں دو نئے سنٹر بنانے کا اعلان کیا لیکن ابھی تک عملی طور پر اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے جو ان اضلاع کے منتخب نمائندوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد میں بھرپور نمائندگی ہونے کے باوجود تشخیصی سنٹرز کا نہ بننا ان منتخب نمائندوں کی نااہلی ہے ۔ہزارہ ڈویژن کے تقریبا تمام اضلاع میں وزراء اور مشیر ہیں۔ ضلع ایبٹ آباد میں سپیکر صوبائی اسمبلی، صوبائی وزیر ، ہری پور میں وفاقی وزیر اور صوبائی وزیر، ضلع مانسہرہ میں مشیر اور وفاقی وزیر اور ضلع بٹگرام میں ایک مشیر شامل ہے۔ اگر انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے وباء پھیل گئی تو ہزارہ ڈویژن میں ایوب میڈیکل کمپلیکس کے علاوہ کوئی ہسپتال ایسا نہیں ہے جو ہزارہ ڈویژن کے عوام کو علاج کی سہولت فراہم کر سکے۔ ڈی ایچ کیو مانسہرہ ہری پور یا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اس قابل نہیں ہیں جو اس بیماری کے شکار مریضوں کو صحت کی سہولت فراہم کر سکیں اگران دو تشخیصی سنٹروں کے قیام میں مزید تاخیر کی گئی تو اس سے نقصان ہو گا اور یہ وباء مزید پھیل سکتی ہے جبکہ باقی صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اسی طرح کی پوزیشن ہے ۔ اس لئے اگر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے تو صوبہ کے پی کے میں ہر ڈویژن کی سطح پر تشخیصی سنٹرز قائم کیے جائیںاور فوری طور پر این ڈی اے اپنے اعلان کردہ ایبٹ آباد اور ڈی آئی خان تشخیصی سنٹر کا آغاز کرے تاکہ کرونا کو کنٹرول کرنے کے راستے اپنائے جاسکیں ورنہ اس کے پھیلاؤ کی تمام تر ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومت پر ہو گی جنہوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ایوب ٹیچنگ ہسپتال اس علاقے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور ہر سال لاکھوں مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرتا ہے اور اس کڑے وقت میں بھی بڑھ چڑھ کر عوام کی خدمت میں مصروف ہے، لیکن ہسپتال کو اس وقت فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس وباء سے لڑنے کے لئے ایوب ٹیچنگ ہسپتال نے کرونا فنڈ قائم کیا ہے۔ہسپتال میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے 70 کمروں پر مشتمل کرونا بلاک بنایا گیا ہے، جو کہ مرکزی عمارت سے بالکل علیحدہ ہے اور ڈیوٹی کرنے والے سٹاٖف کی رہائش کا انتظام بھی اسی بلڈنگ میں کیا گیا ہے۔صوبہ کے پی کے حکومت نے ایم ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے عام آدمی کے لئے علاج کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ اپنوں کو نوازنے کا ایک منصوبہ ہے ۔ اگر ایم ٹی آئی ایکٹ سے پہلے کا سسٹم بحال ہو جائے تو ہسپتال میں چندے مانگنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ وہ اپنے سالانہ فنڈ میں بہترین عوام کو علاج کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے ۔ اب لاکھوں ضرورت مند مریض علاج کی سہولت سے محروم ہو گئے ہیں اب جبکہ کرونا وائرس کے باعث ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے اس لئے سوائے ایمرجنسی مریضوں کے علاج کی دیگر سہولیات بند ہیں اب زیادہ کرونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کو فوکس کیا ہوا ہے ۔ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح کے پی کے میں بھی مکمل لاک ڈاون کے باعث کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کے علاوہ باقی تمام شعبہ جات دیہاڑی دار لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ مسلم لیگ ن کے ملک محبت اعوان نے اپنے پورے حلقہ این اے 16 کے بیشتر یونین کونسل میں ساڑھے آٹھ ہزار خاندانوں کی مدد کی ہے اسی طرح مسلم لیگ ن کے صوبائی جنرل سیکرٹری اورایم این اے مرتضی جاوید عباسی اور ا ن کے بھائی ذوالفقار جاوید عباسی بھی اپنے عوام کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اسی طرح تحریک صوبہ ہزارہ کے سابق سیکرٹری جنرل سردار فدا حسین بھٹی اپنے دوستوں سے مل کر روزانہ 30 سے 35 خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔اسی طرح مختلف علاقوں میں کام کرنے والے رفاحی ادارے بھی عوام کی مدد میں پیش پیش نظر آرہے ۔ وفاقی حکومت نے ریلیف فنڈ قائم کیا ہے ۔اس وقت تقریبا 70فیصد سے زیادہ لوگ کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث کاروبار سے محروم ہیں ۔ایسے حالات میں صوبہ کے پی کے کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بھی عوام کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے اپنے اپنے حلقوں میں اور جہاں جہاں جس سیاسی جماعت کا اثرورسوخ ہے وہ اپنے بھائیوں کی مدد کریں ۔