تبلیغ سے وائرس نہیں دین پھیلا ہے!
5اپریل کو رات 9بجے، 9منٹ تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر ملک بھر سے کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے ’’لاک ڈاؤن دیوالی‘‘ منائی گئی جس میں لوگوں کو رغبت دلوائی گئی کہ وہ اپنے گھروں کی چھتوں پر موم بتی، دیہَّ، موبائل کی ٹارچ کو جلائیں اور اُجلا پھیلائیں۔ اس سے قبل بھی (Howdy Modi) یہ فلسفہ پیش کر چکے تھے کہ ’’تالی اور تھالی بجاؤ، بیماری کو بھگاؤ‘‘! اب صاحب بصیرت شخص کے ذہن میں ایک سوالیہ نشان جنم لیتا ہے کہ ایسی دقیانوسی نظریات کے تناظر میں کورونا سے لڑنے کا ایسا ٹھوس حل کیسے مضمر ہو سکتا ہے؟ دراصل اس میسج میں مودی کی سیاست یہ تھی کہ وہ مشاہدہ کر سکے کہ بھارت میں سٹیزن شپ ایکٹ میں جو ترامیم کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں مسلمان مشتعل ہوگئے تھے، اب کتنے فیصد مسلمان مودی کی اس منادی پر اسٹینڈ لیتے ہیں یا کورونا کی آڑ میں تبلیغی جماعت پر جو نشانہ باندھا گیا ہے اسکا کیا ردِّعمل ہے؟ قارئین موجود صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین دھلی کے خلاف مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دئیے گئے ہیں۔ بھارتی بکاؤ میڈیا اور بی جے پی ٹولہ کی شرانگیزیاں انسانی گراوٹ کی انتہا کو چھو رہی ہیں۔ عظیم انسانی بحران (COVID-19) کے باوجود مودی نے فرقہ واریت کو ہوا دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مودی نے کئی لوگوں کی کورونا وائرس ٹیسٹ رپورٹ مثبت آنے پر الزام لگایا کہ سارا وائرس پھیلا ہی تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ جیسے متعصب، بنیاد پرست وزیر اعلیٰ نے تبلیغی جماعت کو لے کر کئی سخت اقدامات کر دئیے۔ اتر پردیش میں 200سے زیادہ غیر ملکی شہریوں کے پاسپورٹ ضبط کرنے کی کاروائی کو آگے بھی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب نفرت کا پرچار کرنے والے بھارتی صحافیوں نے اپنے ٹاک شوز ٹاک شوز میں مسلم سکالرز کو مدعو کر کے آن لائن تذلیل کی۔ اس کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ’’تبلیغی جماعت والے گھر گھر جاکر تبلیغ کے نام پر کورونا پھیلا رہے ہیں۔ مزید پر کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے بنی مصنوعات کا بائیکاٹ کے جائے وہ فروٹس، کھانے پینے کی اشیاء میں تھوک ملا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بھارتی کرنسی نہ تھمائی جائے وہ اس سے ناک پونچ کر کاروبار کرتے ہیں‘‘۔ ان گھٹیا، منفی الزامات کے بعد سوشل میڈیا پر یکے بعد دیگرے من گھڑت، پراگندہ سوالات اٹھنے شروع ہوگئے کہ ’’کیا مسلمانوں پر کورونا نہیں ہو سکتا؟‘‘ دوسرا کورونا لفظ قرآن سے نکلا ہے!!! میں بھارتیوں کے سوالات کے جوابات دینے سے قبل تبلیغی جماعت کے حوالے سے ان کا تردد دُور کرنا چاہوں گی کہ تبلیغی جماعت ایک اسلامی اصلاحی تحریک ہے جو کہ 1926ء سے اب تک اخلاقیات کی اعلیٰ مثال پیش کر رہی ہے۔ 31 سے زائد ممالک میں 94سالوں سے درس و تدریس کے فرائض پوری ذمہ داری کے ساتھ سرانجام دے رہی ہے۔ ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جو اس جماعت کی ساکھ کو متزلزل کر سکے۔ تبلیغی جماعت نے لوگوں کو گھٹاٹوپ اندھیروں اور لہوولعب کے دائروں سے نکال کر سرمدی نور سے روشناس کروایا۔ بھارتی صحافیوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی تنظیم پر الزام لگانے سے پہلے اس کی ہسٹری کو کھنگالیں آیا کہ تہمت اس پر فٹ بھی ہو سکتی ہے یا نہیں! اور بھارتی عوام سے درخواست ہے کہ کسی بھی مذہب کے خلاف بے بنیاد باتیں بنانے سے پہلے اس مذہب کا مطالعہ ضرور رکریں تاکہ اس کے پیروکاروں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ تنقید سے قبل تحقیق کر لیا کریں۔ مسلمانوں کو بیماری کیوں نہیں آسکتی؟ بھئی بیماری دھرم، مذہب دیکھتی ہے!! کیا ایران اسلام ملک نہیں، سعودی عرب میں 24گھنٹے تک لگاتار کرفیو چل رہا ہے۔ پاکستان، یو۔اے۔ای، ملائیشیا، انڈونیشیا میں کئی کیسسز ریکارڈ ہوئے۔ کورونا قرآن سے ہرگز اخذ شدہ نہیں ہے۔ کورونا کے معنی ہیں کراؤن والا وائرس جبکہ قرآن کے معنی ہیں بار بار پڑھی جانے والی کتاب۔ اگر بات کی جائے فروٹس، اشیائے خوردونوش کی تو کرنی ماتا استھان (چوہوں والا مندر) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جہاں 20ہزار چوہے موجود ہوتے ہیں اور انکا جوٹھا کھایا پیا جاتا ہے۔ اسی طاعون سے 1896 میں بمبئے شہر میں تباہی مچ گئی تھی!!! افسوس تعصب کی عینک لگی ہے اور وہ بھی کالی۔