• news
  • image

کامیاب کون ہوگا

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’زمانے کی قسم!بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور ایک دوسرے کو نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی‘‘۔اگر ہم تھوڑا غور کریں تو ہم بہت جلد یہ نقطہ سمجھ جائیں گے کہ یہ سورہ دنیا بھر کے انسانوں کو جھنجھوڑ رہی ہے اور انہیں پیغام دیا جارہا ہے کہ تم سب خسارے میں ہو۔کامیاب صرف وہی ہوں گے جن کا سینہ ایمان سے روشن ہوگا ۔جو نیک عمل کریں گے اور جو نیک عمل کرنے کی نصیحت بھی کریں اور مشکل میں صبر کرنے کا مشورہ بھی دیںگے۔چلیں آج ہم اپنے گرو و پیش کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اس سورہ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کر لیتے ہیں ۔دنیا کوکورونا وائرس کا شکار ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں۔ابھی چند ماہ پہلے تک دنیا کی ترجیعات کچھ اور تھیں ۔ابھی چند ماہ پہلے تک امریکہ،چین کے مفادات کا ٹکراو کچھ اور طرح کا تھا ،ابھی چند ماہ پہلے تک عرب دنیا میں حالات کا رخ کسی اور سمت جارہا تھا ۔ابھی چند ماہ پہلے تک پاکستان میںکچھ اور ہی پلان بنائے جارہے تھے ۔ہر کوئی اپنی اپنی جگہ خود کو کامیاب سمجھ رہا تھا ۔وزیر اعظم پاکستان اس بات پر خوش تھے کہ ان کے سارے مخالفین زنجیروں میں جکڑے جاچکے ہیں ،نیب کے ذریعے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے راہنما آصف علی زرداری ان کی بہن فریال تالپور اور ان کی جماعت کو خاموش کرایا جاچکا تھا ۔ابھی چند ماہ پہلے ہی ملک کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم عزت مآب جناب نوازشریف بڑے آرام سے اپنے وٹروں ،سپوٹروں اور ڈاکٹروں کو چکمہ دیتے ہوئے اپنے بچوں کے دیس انگلستان روانہ ہوگئے تھے ۔ ان کے جانے کے بعد عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کہ اب وہ اپنی مرضی سے اگلے چار سال حکومت چلائیں گے ۔لیکن ایک ایسے وقت جب وہ اپنے سارے مخالفین کو چپ کراچکے تھے ان کی اپنی کشتی میں سوراخ ہوچکا ہے ۔یوں دیکھا جائے توان چند مہینوں میں دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔امریکہ و چین سے لے کر سعودی عرب و روس اور سارے یورپ میں موت کا رقص چل رہا ہے ۔اپنے ملک میں کسینو اور سینماز کھولنے کے شوقین عرب بادشاہوں کو حرمین کے دروازے عبادت کے لیے ہی بند کرنے پڑ گئے ۔اور خود کو ترقی یافتہ کہلوانے والا یورپ اپنے لوگوں کو سڑکوں پہ بے یارو مددگار مرتا دیکھ کر رو رہا ہے ۔یعنی جو لوگ آج سے چند مہینے پہلے تک اپنی سائنسی ترقی کے گن گا رہے تھے آج وہ بے بس ہیں ۔آج ان کی سب ایجادات فیل ہو چکی ہیں ۔کل تک ہلہ گلہ کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ نکالنے والوں کے لیے آج عبادت گاہو ںمیں جانا بند ہوچکا ہے ۔یعنی آج ہم سب خسارے میں ہیں ۔اور دنیا کا ہر ملک بے بس ہے ۔وہ ملک جو کل تک اسلام کو دشت گردی سے جوڑتے تھے آج ان کے پارلیمان میں قران پڑھا جارہا ہے ،جن ملکوں میں کھلے عام اذان دینا منع تھا آج وہاں میں اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔یہی تو میرے رب کی قدرت ہے وہ جب جو چاہے کر دیتا ہے ۔بات سورہ عصر کے حوالے سے ہی چل رہی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’اگر لوگ اس سورہ کوبغورپڑھیں اور سمجھ لیں تو ان کے لیے یہ کافی ہے‘‘۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ ہے۔کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کی کوشش کریں۔یعنی ہم اللہ تعالی کے احکام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق عمل کریں، اپنے والدین، اپنی اولاد، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ساری انسانیت کی فلاح کے لیے کوشش کریں۔ہم اللہ کی مرضی کے مطابقاس دنیا میں اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں، تا کہ ہم اُخروی خسارے سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔آج ساری دنیا کی طرح ہم بھی لاک ڈاون کی حالت میں ہیں ۔یقینا یہ بہت مشکل وقت ہے لیک یہ مشکل وقت کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گا ۔ہمیں آج یہ سوچنا ہے کہ جس دین کے ہم ماننے والے ہیں اس دین کے کتنے احکامات پر ہم دل سے عمل کرتے ہیں ۔ہم عبادات میں کتنے شوق سے وقت گزارتے ہیں اور معاملات میں ہمارا طرز عمل کس نوعیت کا ہوتا ہے ۔صاحبو! اگر آج ہم غور کریں تو ہم میں سے بہت سے کلمہ گو معاملات کی طرف اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی اس کی ضرورت ہے ۔ لفظ جہاد سے کفر کے ایوان لرزنے لگتے ہیں اس لیے جہاد کا تو نام لینا بھی ہمارے لیے منع ہے۔لیکن نماز، روزہ، حج اور ذکواۃ کی پابندی کرنے والے بہت سے مسلمان مختلف قسم کی جس میں بجلی،گیس،ٹیکس کی شکل میں چوریاں کرتے ہیں ،ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں ،ناجائز منافع کماتے ہیں حد تو یہ ہے کہ آج ہماری مارکیٹوں میں کسی جنس کے بارے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ملاوٹ شدہ نہیں ہے ۔ہر سال حج کرنے والے ،رمضان کی راتوں کو تلاوت کرنے والے دن کو روزے رکھنے والے بڑے بڑے کاروباری اپنے ملازموں کی مزدوری کھا رہے ہیں ، مارکیٹوںمیں دونمبر چیزیں فروخت کررہے ہیں تو پھر ہم کیسے کامیاب ہوں گے بے شک ایسا عمل کرنے والے سب لوگ خسارے میں رہیں گے ۔تو کیا آج ضرورت نہیں ہے کہ ہم قدرت کا اشارہ سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے قول و فعل کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنوارنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔رب کی یہ بھی قدرت ہے کہ وہ جب چاہے تخت نشینوں کو کال کوٹھڑیوں میں پہنچا دے اور جب چاہے کسی عام سے بندے کو بادشاہ بنا دے۔صاحبو! ذرا سوچنا کہ رب نے قسم کھا کے کیوں کہا کہ کون سا انسان خسارے میں ہیں۔اور کون کامیاب ہو گا ۔
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن