• news
  • image

کرونا وائرس اور قوم کا مورال

ایک پاکستانی فلاسفر، جو لاہور کی معروف یونیورسٹی میں اپنے شعبے کی صدر ہیں۔ راقم کو وٹس ایپ پر ایک خوفناک حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اُن کی فکر کا حاصل یہ ہے کہ کرونا وائرس دو اور چار اور آٹھ اور سولہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے اور اگر یہی کیفیت رہی تو خود ہی اندازہ کر لیں کہ کیا بنے گا۔ حاصل ضرب کا تصور ہی لرزہ خیز ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس حوالے سے حکومتی کارگزاری کی پرزور الفاظ میں تعریف کی۔ ظاہر ہے کہ حکومت مع مسلح افواج اپنے وسائل کے مطابق اور مقدور بھر اس بلائے بے درماں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے البتہ ڈاکٹر صاحبہ کو شکایت تھی کہ عوام کی بھاری اکثریت سنجیدہ نہیں، یہ غیر سنجیدگی کورونا وائرس کے سرعت کے ساتھ پھیلائو کا باعث بن رہی ہے۔ جس پر تشویش بے جا نہیں۔
کرفیو لگایا جاتا تو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد بھوک سے لقمہ اجل بن جاتے ۔ لاک ڈائون میں یہ نوبت آ گئی ہے کہ کئی گھرانے فاقے کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز ایک صاحب نے آپ بیٹی سنائی کہ وہ لاہور سے ملتان جانے کے لئے نکلے، ابھی مین سڑک پر نہیں پہنچے تھے کہ ایک بھرے چوک میں کچھ لوگوں کو گاڑیاں روک کر لوٹ مار کرتے دیکھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ خدا جانے یہ بھوک سے تنگ آ کر لوٹ مار اور چھینا جھپٹی پر اُتر آئے تھے یا کرونا وائرس کی آڑ میں جرائم پیشہ لوگ تھے۔ دونوں امکان ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی تشویشناک ہیں۔ کچھ مخیر حضرات اور فلاحی تنظیمیں ، ضرورت مندں تک پہنچ رہی ہیں اور اُن کی مشکلات کم کرنے میں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے موجودہ حالات اور مہنگائی کا ادراک کرتے ہوئے نادار اور مفلس کنبوں کی وزیراعظم کی اعلان کردہ رقم تین ہزار میں بارہ ہزار کا اضافہ کرا کر حالات کے ہاتھوں مجبور بے روزگاروں کو سہارا دینے کی قابل تحسین کوشش کی ہے لیکن اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ امداد مستحق لوگوں تک پہنچے۔ خوف خدا اور جذبۂ انسانیت سے عاری لوگ سرکاری امداد کو ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کرونا وائرس وبا سے پہلے لوگ سیلابوں اور زلزلوں میں آف زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مالی امداد اور ضرورت کی چیزیں مثلاً اشیائے خورد و نوش اور کپڑے وغیرہ متاثرہ لوگوں تک پہنچائے تھے۔ اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو تینوں وقت کھانے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ پڑوس یا گلی محلہ میں کوئی بھوکا تو نہیں۔
خدا جانے اس آفت کو ٹلنے میں کتنا وقت لگے ، اگرچہ بعض فیکٹریوں اور کارخانوں کو چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے جس سے بے روزگاری میں کمی ہو گی لیکن اس کے باوجود آمدنی کے ذرائع سے محروم ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ امیر ملکوں میں فیکٹریوں ، کارخانوں اور بازاروں کے بند ہونے سے عام آدمی پر زیادہ اثر نہیں پڑا لیکن پاکستان ایسے تیسری دُنیا کے ممالک نہایت مشکل حالات سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کب تک یہ بوجھ اُٹھائے گی۔ شہری آبادی کو ایک اور بڑی مشکل یہ درپیش آئی ہے کہ ، ہنرمند اور کاریگر طبقہ ، الیکٹریشن ، کار پینٹر ، مکینک وغیرہ کا تعلق دیہات سے تھا۔ وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ گھروں میں چھوٹے موٹے کام نکلتے رہتے ہیں لیکن کاری گر کوئی نہیں ملتا۔ ہمارے ہمسائے کی واشنگ مشین خراب ہو گئی ہے ، اُسے ٹھیک کرنے والا کوئی نہیںملتا۔ ایک صاحب کی گھر کی وائرنگ میں کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے وہ پریشان ہے۔
معلوم تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ پوری دُنیا ایک ایسی آفت کی زد میں آ گئی ہے جس نے سب کے ہاتھ پائوں باندھ دئیے ہیں۔ اچھے بھلے ہنستے بستے گھرانے موم بتیوں پر آ گئے ہیں اور کپڑے ہاتھ سے دھوئے جا رہے ہیں ، جن حضرات، فلاحی تنظیمیں اور حکومت اس حوالے سے بھی کوئی ایسا نظام وضع کریں کہ گھروں میں محصور شہری آبادی اس قدر محتاجی سے دوچار نہ ہو جائے۔ گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں اور مائیاں بھی اپنے اپنے ٹھکانوں میں دُبک گئی ہیں۔ یا شہر چھوڑ گئی ہیں، وہ خواتین جو اپنے ہاتھ سے چمچ دھونا عار سمجھتی تھیں اب نہ صرف برتن مانجھ رہی ہیں بلکہ جھاڑو دے رہی ہیں اور فرش پر ٹاکی پھیرتی نظر آتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنگیوں، دشواریوں کے باوجود وزیراعظم اور اُن کے رفقاء کی طرح عوام بھی بڑے عزم و ہمت اور حوصلے کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کر رہے ہیں جو فتح کی علامت ہے۔ مخالف لشکر کو دیکھ کر حوصلہ ہار جانے والی افواج پوری طر ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود حوصلہ ہار بیٹھتی ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے امدادی کارروائیاں منتشر اور انفرادی طور پر ہو رہی تھی ، اگر حکومت، مسلح افواج ، طبی عملہ، اپوزیشن ، فلاحی ادارے، رفاہی تنظیمیں ار مخیر حضرات ایک نظم کے تحت پیش قدمی شروع کریں تو کامیابی بہت جلد ممکن ہے۔ قائداعظمؒ نے جس اتحادکو اپنے ماٹو کا حصہ بنایا تھا اُس کا مطلب یہی ہے ۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مددکے جذبے کا احساس کسی طرح کم نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں صرف اپنے لوگوں کے لئے ہی نہیں پوری دُنیا کے لئے خیر خواہ بننا ہو گا۔ گزشتہ روز وٹس ایپ پر ایک صاحب جاوید احمد غابدی صاحب سے ایک صاحب سوال کر رہے تھے کہ ہمیں غیر مسلموں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ آپ نے بطور اچھا جواب دیا کہ انسانیت کے ناتے سب انسان بھائی بھائی ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن