وزیراعظم کی عالمی ضمیر پر دستک
کررونا نے الاسکا سے نیوزی لینڈ اور فن لینڈ سے افریقہ کے ریگزاروں تک زندگی معلق کردی ہے،صور اسرافیل نہیں پھونکا گیا مگر قیامت کا سماں ہے،موت کا سناٹا ہے،ایک نادیدہ ذرے نے سپر پاورز کوبھی بے بس کرکے رکھ دیا ہے،گدا تو گدا شاہ بھی اس کی لپیٹ میں آکر موت کی وادی میں اُتر رہے ہیں۔کیا یہ اقوام عالم کیلئے رب ذوالجلال کی طرف سے راہِ راست پر آنے کی وعید تو نہیں۔ایسی آفتوں اور وبائوں کی صورت میں انسان اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا کرتے تھے مگر اب اجتماعی دعاؤں سے بھی اللہ نے انسانوں کو محروم کردیا ہے۔عبادت گاہیں بند کرنا پڑی ہیںتاہم شُکر کریں توبہ کے در بند نہیں ہوئے۔دنیا کرونا سے نجات کیلئے سرگرداں ہے۔
ایسے موقع پر وزیراعظم نے بجا طور پر عالمی ضمیر پر دستک دیتے ہوئے اسے جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے عالمی برادری کے نام ویڈیو پیغام میں باور کرایا’’ ترقی پزیر ممالک میں وائرس سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کے ساتھ نمٹنا بہت مشکل ہے،یہاںایک طرف لوگ کورونا سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف بڑا چیلنج لوگوں کو بھوک کی وجہ سے مرنے سے بچانا ہے۔کورونا لاک ڈاؤن کے دوران امریکہ نے 2 اعشاریہ 2 ٹریلین ڈالر، جرمنی نے ایک ٹریلین یوروز اور جاپان نے ایک ٹریلین ڈالر کا ریلیف پیکج دیا ہے۔ دوسری جانب 22 کروڑ لوگوں کے ملک پاکستان میں ہم صرف 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دے سکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور عالمی مالیاتی ادارے ایسا کوئی قدم اٹھائیں جس سے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں آسانی ملے اور وہ کورونا وائرس کے خلاف موثر طریقے سے لڑ سکیں۔ ‘‘
موذی ترین مرض کرونا سے نجات اور اس کے تدارک کے لیے پاکستان کے تمام اہم ادارے ایک پیج پر آ چکے ہیں۔ حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ اس وبا کے خاتمے کے لیے بروئے کار ہے۔ پاک فوج ہر طرح سے تعاون کر رہی ہے۔ اپنے ہسپتال اور سٹاف بمع ایکوپمنٹ اور ادویات کے سب پاکستانیوں کے نام کر دیا ۔پاک فوج اس نامراد وائرس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔
آج کرونا کے خاتمے کے لیے حکومت ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ وزیر اعظم اپنی ٹیم کی گاڑی کی ڈرائیونگ کر رہے ہیں۔ قوم نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے۔ ان کے سب پر مشاورت کے دروازے کھلے ہیں۔ قوم کو ان پر اعتماد ہے مگر اپوزیشن کی طرف سے ان نا مساعد حالات میں بھی معاونت کا فقدان ہے۔ سیاست سیاست کھیلنے کا سلسلہ رُک نہیں رہا۔اس بد ترین صورتِ حال میں بھی استعفے کے مطالبات اور حکومت گرانے کی کوشش ہو رہی ہیں ۔ آج پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کرونا کے بے رحم پنجوں میں آکرتڑپ رہی۔یہ سیاست کا نہیں کرونا سے کسی بھی صورت نجات حاصل کرنے کا وقت ہے۔دنیا کے سرحدیں بند ہیں مگر سوچیں قریب ہیں۔ہر ملک خود مصیبت میں گھرا ہوا مگر دوسروں کی مدد بھی کر رہا ہے۔پاکستان میں اپوزیشن کو سرِ دست سیاست سے بالا تر ہو کر پہلے کرونا سے نجات کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا ، سیاست ہوتی رہی ہے۔اور ہوتی رہے گی۔
حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کے باعث بیروزگار ہونے والوں کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج دیا گیا ہے۔ اس پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔عوام کو ممکنہ مشکلات سے نکالنے کے لیے رضا کار ٹائیگر فورس بنائی گئی ہے۔ اس پر بھی لے دے ہونے لگی۔دراصل ماضی میں ایسی کوششیں کاروائیاں ڈالنے کے لیے اور سیاسی مفاد اور حواریوں حمایتوں کو نوازنے کے لیے ہی ہوتی تھیں۔ایسا کرنے والے اپنی عینک سے آج کی حکومت کے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں۔مگر یقین مانیے عمران خان کسی معاملے میں ایک دھیلے کی کرپشن کو برداشت نہیں کر سکتے۔ان کا تو ایجنڈا ہی کرپشن کا خاتمہ اور کڑا احتساب رہا ہے۔ وہ کسی کو بھی کرپشن کے حوالے سے بخشنے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آٹا شوگر مافیا کے خلاف انکوائری کرانے اور اس رپورٹ کو منظر عام پر لانا ہے۔ ماضی میں اپنی ہی حکومت اور ساتھیوں کے بارے میں ایسی کبھی انکوائری ہوئی نہ رپورٹیں سامنے آئیں۔کسی بھی بااثر آدمی کے خلاف اول تو کمیشن ہی نہ بن سکا اگر بنا بھی تو رپورٹیں دبا لی گئیں۔ عمران خان پر بھی شوگر آٹا مافیا کے بارے میں رپورٹ جاری نہ کرنے کے حوالے سے دباؤ تھا۔ انکوائری ٹیم کو دھمکیاں دی گئیں ۔ اس پر وزیر اعظم نے سخت نوٹس بھی لیا اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے رپورٹ جاری کر دی اور کئی وزارتیں فوری طور پر تبدیل کر دی گئیں۔کچھ بیوروکریٹس کو بھی اِدھر اُدھر کیا گیا جبکہ حتمی کارروائی 25اپریل کو کمیشن کی فرانزک رپورٹ کے بعد ہو گی۔