• news
  • image

سیاسی شوگر ڈیڈی

کرونا پیسے دیکھتا ہے نہ دھن دولت اور نہ ہی حسب نسب، جو احتیاط نہیں کرتا اسے وائرس زد میں لے سکتا ہے۔ ابھی اس کا علاج دستیاب نہیں، کوئی میڈیسن کرونا میں کارگرثابت نہیں ہو رہی۔ اس وقت پوری دنیا لاک ڈائون ہو چکی ہے یا یوں کہیے کہ ایک خدائی مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے۔ بیماری سے لوگ جو مریں گے سو مریں گے، بھوک انسانی المیہ پیدا کر سکتی ہے۔ کرونا کے خاتمے اور سدباب کے ساتھ ساتھ بھوک سے اموات کو روکنے پر بھی ہر ملک توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان میں بھی فنڈ قائم ہے۔ حکومت نے ایک بڑی رقم بے وسیلہ لوگوں کے لیے مختص کی اور اس کی فراہمی بھی شروع ہو گئی مگر پاکٹ مار بھی سامنے آ گئے۔ چور چوری سے جائے ہیراپھیری سے نہ جائے۔ فی خاندان 12ہزار روپے بھجوائے گئے ۔کہیں بارہ ہزار کے بجائے 11ہزار اور کہیں 10ہزار بھی دیئے جا رہے ہیں۔ زیادہ شکایتیں سندھ سے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے قائم کردہ فنڈ میں ’’بڑے لوگ‘‘ حصہ لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ٹویٹر کے سی ای او جیک ڈورسی نے اپنے ملک میں کرونا فنڈ میں ایک ارب ڈالر جمع کرائے ہیں۔ یہ ان کی دولت کا 28فیصد ہے۔ ہمارے ہاں کے کاروباری حضرات اپنی دولت کا ایک فیصد بھی جمع کر ادیں تو ہمارے تمام قرض اتر سکتے ہیں۔ ملک پسماندگی سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتاہے مگر ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمارے سرمایہ دار اور سرمایہ کار دھن سے گھڑا بھر کے اس پر ’’چَپن‘‘ رکھ کر سیل کر دیتے ہیں، اس کے بعد دوسرا ،تیسرا چوتھا اورگھڑے پر گھڑا بھرتے جاتے ہیں۔۔۔ کمائی میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ جائز ہو مگر جہاں توانسانیت کی بھی پروا نہیں کی جاتی ہرصورت مال بنانا مطلب و مقصد ہوتا ہے۔ جس طرح سے پیسہ بنایا جاتا ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کیا کیا کاریگری اور فنکاری دکھائی جاتی ہے! مگر اوپر والا ایسے لوگوں کے مقابلے میں بہتر تدبیر والاہے ،زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پران کو بے نقاب کر دیتاہے۔
کل بے نامی جائیدادیں سامنے آئیں ،فیک اکائونٹس سے پردہ اٹھا، اسی طرز پرآج بے نامی چینی کاروبار کا بھی انکشاف ہواہے۔ ٹرک ڈرائیوروں، گھریلو ملازمین کے نام پر چینی کی خریدوفروخت کی جاتی رہی۔ 25اپریل کو اس حوالے سے مزیدانکشافات سامنے آئیں گے اور کارروائی بھی ہو گی۔
ہمارے کاروباری لوگوں کے ذہن رسانے پیسہ بنانے کو سائنسی اور آرٹ کی حیثیت دے دی۔ انتخابات سے قبل بڑے لوگ ایک پلاننگ کے تحت ایک پارٹی میں اور کچھ دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ کامیاب ہونے والی پارٹی کے ان لوگوں کو پارٹی پر سرمایہ کاری کرنے کے باعث اعلیٰ عہدے ملتے ہیں جس کے بل بوتے پر وہ اپنا اور اپنے کارٹلزساتھیوں کابھی تحفظ کرتے ہیں۔ آج آپ کے سامنے شوگر اور گندم بحران کی رپورٹ ہے۔ اس میں حکومتی اور اپوزیشن کے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ میڈیا میں آپ کو ایک دوسرے پر برستے نظر آئیں گے مگر اندر سے ایک ہی ہوتے ہیں
ان لوگوں کی کوئی پارٹی، کوئی خاص مذہب و مسلک اور سیاسی وابستگی نہیں ہوتی سب کچھ مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ پارٹیوں کو یرغمال بنانا اور کسی کو محسوس بھی نہ ہونے دینا ان کی حکمت عملی ہوتی ہے۔یہ پارٹی کا سرمایہ سمجھے جانے والوں کو پچھلی صفوں میں دھکیلنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال تحریک انصاف کی لے لیں۔ آپ کو ایڈمرل جاوید اقبال، فوزیہ قصوری، جسٹس وجیہ الدین جیسے لوگ نظر نہیں آئیں گے ۔ان کی جگہ لینے والے سامنے ہیں۔ ان میں سے کئی کے نام چینی آٹا رپورٹ میں آ چکے ہیں۔ اس بحران اور سکینڈل میں مسلم لیگ ، پی پی اور ق لیگ کے لیڈر بھی شامل ہیں۔ 25اپریل کو مزید کارروائی کی امید کی جارہی ہے۔ دیکھیں کیا بنتا ہے مافیاز کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ ان سے رقمیں واپس ہوں گی؟ چیلوں نے ماس کھا کر کبھی واپس نہیں کیا۔ یہ مافیا کہیں عمران خان ہی کو نہ لے ڈوبے۔ عمران خان اگر احتساب میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بڑی بات ہو گی۔بہتر ہے ایسے بحرانوں سے بچنے کے لیے سبسڈی کا سلسلہ ختم کرکے عوام کو براہ راست گیس بجلی کی قیمتوں میں بڑا ریلیف دے دیا جایا کرے۔مجھے یاد ہے 2017ء میں، میں ایک مشن پر میاں شہبازشریف اور جہانگیرترین کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ ان سے الگ الگ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ جہانگیر ترین کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ ان سے میاں نوازشریف کی بڑھتی ہوئی دولت کی بات کی تو ترین صاحب نے کہا،ان کی کی جتنی بھی دولت ہے مجھے اس کا نہیں البتہ میرا اپنا اس سال کا بزنس، ٹرن آئوٹ 52 ارب روپے رہا ہے۔ اس کا تفصیلی تذکرہ میں نے اپنی زیر طبع کتاب میں کیا ہے۔
آپ کو کھاد کے لیے اربوں روپے کا کیمیکل درآمد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے مگر یہ لوگ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتی سیکٹر کو بلیک میں فروخت کر دیتے ہیں۔ایفیڈرین کو مافیا کس طرح کالادھن بناے میں استعمال کرتا رہا۔ہمارے ہاں تحقیقات کس طرح کی ہوتی ہے اس کا اندازہ شیخ رشید کی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ بقول شیخ رشید ماضی میں ایک کیس کے مدعی بنے جس میں خوردنی تیل کی 40بوگیوں کا معاملہ تھا۔جہاں لمبے ہاتھ سامنے آئے اوراس تیل کو پانی قرار دے کر کیس ختم کر دیا گیا۔آٹا اور چینی بھی کل تحقیقات میں مٹی ہی ثابت نہ ہو۔ہمارے ملک کے مظلوم عوام کے ساتھ ان سیاسی شوگر ڈیڈیز کا کھلواڑ اب بند ہونا چاہیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن