کہیں بوریت سے نہ مر جائیں
بس اللہ میاں…اب تو اس منحوس کرونا سے نجات دیدے۔ ایک ماہ سے گھر میں قید ہیں اور ایک دوسرے کی مسلسل شکلیں دیکھ کر پریشان ہو گئے ہیں۔ کرونا نے پوری دنیا کو محدود کر دیا ہے۔ یہ لامحدود دنیا ایک ڈربہ لگنے لگی ہے۔ صرف پاکستان میں اب تک 95 افراد موت کا ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ساڑھے پانچ ہزار افراد میں وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ امریکہ اٹلی، جرمنی ، سپین ، ایران اور بے شمار ممالک میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کا اہداف چھونے والی ہے۔ اکیسویں صدی اور انسانی ترقی کی انتہائوں، سائنس ، ٹیکنالوجی کی کامیابیوں اور انسانی ذہن کی کرشمہ سازیوں کے باوجود انسانی بے بسی دیدنی ہے۔ ٹی وی ، اخبار ، سوشل میڈیا، ٹیلیفونک ٹاک اور روزمرہ زندگی میں اس ناہنجار کرونا وائرس کا ذکر سُن سُن کر اور اس سے ہونیوالی ہلاکتوں، خوفناک اعداد و شمار اور آئندہ کے کرونا کے مذموم عزائم نے سب کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ صورت یہ ہے کہ گھر میں اخبار اٹھائو تو کرونا، ٹی وی لگائو تو کرونا، سوشل میڈیا پر کرونا، جس سے بات کرو، وہی کرونا پر شروع ہو جاتا ہے۔ آج دنیا کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ وہ جو مرضی سائنس اپنا لے لیکن جب دستِ قدرت انصاف کے لئے اٹھتا ہے تو یہی طاقتور، فرعونی اور نمرودی انسان پل جھپکتے میں گر کر مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ قدرتی آفات کی روک تھام تو 2025ء میں بھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ انسان آج تک اپنی اوقات پہچاننے سے قاصر ہے اور ذرا سی طاقت، معمولی سے اختیار اور چھوٹے سے عہدہ کو پا کر خدا بن جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ اُس کی یہ خود ساختہ خدائی لمحوں میں عبرت اور ذلت کا نشان بن سکتی ہے لیکن ان بدترین حالات میں بھی جب حکومت نے اللہ اللہ کر کے ایک ماہ کی تاخیر سے بارہ ہزار غریب فیملیوں کو دینے کے قصد کیا تو دینے والوں میں سے چند ناہنجاروں نے 12 ہزار میں سے ایک ہزار کاٹ کر گیارہ ہزار غریبوں کو دینے شروع کر دئیے۔ بجائے اس کے کہ یہ کمبخت اپنی جیب سے اُن بھوکے مفلس اور قلاش لوگوں کی مدد کرتے۔ اُلٹا غریبوں کے مال میںغبن شروع کر دیا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ حکومت نے اعلان کیا کہ یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کو ریلیف دے گی۔ دو ماہ پہلے بھی حکومت نے یہی کہا تھا لیکن یوٹیلٹی سٹورز پر آٹا، چینی، گھی، دالیں اور روزمرہ کی اشیاء میں دس سے پچاس روپے اضافہ کر دیا گیا تھا۔ یہی صورت اس وقت جب پوری قوم شدید بحران کا شکار ہے تو نظر آ رہی ہے۔ تمام سٹوروں پر اشیاء مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔ سبزیاں پھلوں کے داموں فروخت ہو رہی ہیں اور پھل چاندی کے بھائو بِک رہے ہیں۔ ہرا دھنیا، پودینہ، ہری مرچ جو پانچ دس روپے میں مل جاتی تھی۔ وہ بھی سو روپے سے کم کی نہیں مل رہیں۔ اس موقع پر سب سے زیادہ ڈاکٹروں کو انسانیت کا ثبوت دینا چاہئے تھا کیونکہ وہ قوم کا سب سے زیادہ خزانہ کھاتے ہیں۔ ڈاکٹرز کو جاب بھی فوراً مل جاتی ہے۔ ساتھ ہی وہ پرائیویٹ جاب بھی کرنے لگتے ہیں۔ اپنا ذاتی کلینک بھی کھول لیتے ہیں۔ بے شمار ہاسپٹلز ، لیبارٹریوں اور فارما سوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ انہوں نے کمیشن طے کر رکھے ہوتے ہیں۔ جب کوئی مریض ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک کی فیس لے لیتے ہیں۔ جب کوئی مریض ہاسپٹل یا کلینک میں جاتا ہے تو اُسے ایک انجکشن یا ڈرپ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر مریض کو آٹھ دس ہزار کا سامان لکھ دیتا ہے۔ یہ سامان ڈاکٹر کا اسسٹنٹ یا نرس چالاکی سے اٹھا کر فارمیسی پر بھیج دیتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹرز انتہائی بے رحمی سے مریضوں کو ٹیسٹ، الٹرا سائونڈ، سی ٹی سکین، ایم آر آئی ، انجیو گرافی لکھ دیتے ہیں جبکہ ان کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی لیکن ڈاکٹروں کو اس طریقے سے منتھلی لاکھوں روپے کا فائدہ ہو جاتا ہے۔جب سے کرونا وائرس آیا ہے، اس نے زندگی کو قید خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ گلیاں بازار محلے راستے سڑکیں سب ویران اور سنسان ہیں۔ تفریح گاہیں اداسی کی مورتیاں ہیں۔ کہاں کام کرتے ہوئے سونے کو ترستے تھے۔ آج سو سو کر تھک جاتے ہیں۔ ٹی وی پر ہر وقت کرونا کی خبریں ہوتی ہیں یا پھر وہی بیکار، بے معنی، بے مقصد ڈرامے جن میں ساس نندوں کی سازشیں ہوتی ہیں۔ بہو یا تو انتہائی نیک پروین اور مظلوم دُکھیاری ہوتی ہے یا پھر انتہا درجے کی مکار چالاک۔
ہر ڈرامہ کی ابتداء شادی بیاہ کے رونے سے ہوتی ہے۔ عشق محبت شادی طلاق حلالہ اور بانجھ پن… یُوں لگتا ہے کہ شادی اور طلاق کے علاوہ دنیا میںکوئی کام نہیں ہے۔ کسی ایک ڈرامے میں ایک نہیں کہانی نہیں دیکھی ۔ وہی پُھیسپھسی کہانیاں اور وہ عشق محبت ، شادی طلاق…نئی نسل کو یہ رائٹرز کیا سبق دے رہی ہیں؟؟ صورت یہ ہے کہ زندگی ایک دائرے میںاٹک کر رہ گئی ہے۔ نہ پڑھنے کو دل چاہتا نہ لکھنے کو…نہ پکانے کو دل چاہتا نہ کمانے کو، نہ سونے کو دل چاہتا نہ جاگنے کو…ایک عجب وحشت ، ویرانی اور اُداسی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ اگر ایک دو ماہ اور اسی طرح گھروں میں قید رہے تو لوگ کرونا یا بھوک سے نہیں…بوریت سے مر جائیں گے۔