دیہاڑی دار، کم آمدن والوں کا معاملہ میری جتنی آمدن والے نہیں سمجھ سکتے: اسد عمر
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اس وقت زیادہ توجہ بیماری کا پھیلاؤ روکنے کی طرف ہونی چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غریب آدمی بے شک مرجائے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے جس میں اچھی نیت رکھنے والے اور سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کے فیصلے بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔ ہم پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ عوام کے سامنے حقائق رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چند ہزار لوگوں کے بجائے 21 کروڑ عوام کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرونا کے علاوہ دنیا میں کسی بھی بیماری کے خاتمے کے لیے یہ توازن برقرار رکھا جاتا ہے کہ ایک تو اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے دوسرا کم آمدنی والا طبقہ بھوکا نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے باعث آج پوری دنیا میں یہ بات ہورہی ہے کہ اس توازن کو کیسے برقرار رکھا جائے، لیکن باقی دنیا کی معیشت کے اثرات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، پاکستان میں اس کا ایک جو معاشی پہلو ہے وہ بھوک ہے، تاہم یہ واحد اثر نہیں ہے، وہ لوگ جو روز کماتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی آمدنی میں بمشکل گزارا کرتے ہیں ان پر آمدنی ختم ہونے کا کیا اثر ہوتا ہے یہ بات میری جتنی آمدنی والے افراد نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہم نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔ اس لئے ہمیں اس وقت دو مختلف قسم کی رائے اور آوازیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمارے کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو لیکن ساتھ ساتھ ملک کے وہ کروڑوں لوگ جو صاحب ثروت نہیں ہیں آمدنی ختم ہونے سے ان کو جو مشکلات درپیش ہوں گی ان کا بھی خیال رکھو، لہٰذا یہ وہ لوگ نہیں کہتے ہیں کہ لوگ مرتے ہیں تو مرجائیں۔ لوگوں کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک فیصلہ ہونا چاہیے جسے پورے ملک میں نافذ کردینا چاہیے، ایک حد تک اس بات میں منطق ہے لیکن فیصلے زمینی حقائق کے مطابق لئے جاتے ہیں، زمینی حقائق میں بیماری کے پھیلاؤ اور معاشی پہلو بھی آتا ہے۔ قوم کی بنیادی سمت ایک نظر آنی چاہیے اور قوم کے لیے ضروری ہے کہ تمام اکائیاں مل کر کام کریں اور کوشش کریں کہ باہمی ربط کے ساتھ فیصلے کیے جائیں۔ لیکن میرے خیال میں مقامی نوعیت کے معاملات سے متعلق صوبوں کو بلکہ ضلعی انتظامیہ کو بھی فیصلوں کا اختیار ہونا چاہیے۔