مسئلہ یوٹیلیٹی سٹورز کی امپورٹڈ کھجوروں اور مفتی منیب الرحمان کا!!!!
آج دو اہم چیزوں پر آپ سے بات کرنی ہے اور یہیں سے وزیر اعظم پاکستان سے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں ہونے والی بدانتظامی کے حوالے سے اپیل کرنی ہے کہ خدارا اس طرف توجہ دیں ملک کو دلدل میں نہ دھکیلیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز میں جس طرح قومی خزانے کا ضیاع ہو رہا ہے۔ دیکھ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قومی خزانے کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ کسی بھی طور تبدیلی اور نئے پاکستان کی خبر نہیں دیتا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے دی جانے والی سبسڈی کے حقیقی ثمرات کبھی عوام تک نہیں پہنچے لیکن اس کے ذریعے بڑے بڑے لوگوں کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ آپ پڑھتے جائیں گے اور جانتے جائیں گے کہ عوام کے پیسے پر کیسے ہاتھ صاف کیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے وہ کاغذات پڑے ہیں جن میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن ایک ہزار ٹن کھجوروں کی خریداری کا مرحلہ شروع کرنے لگی ہے۔ یقیناً یہ سارا مرحلہ عین قانونی طریقے سے مکمل ہو گا جس میں اس ایک ہزار ٹن کھجور کی خریداری کا دفاع کرنے کے لیے تمام قانونی نکات پورے کیے جائیں گے۔ لیکن یہ پیسہ کس کا ہے سب سے اہم سوال یہ ہے اور سب سے پہلے اس کا جواب وزیراعظم پاکستان عمران خان کو دینا ہو گا کیونکہ انہوں نے اس قوم کو زبان دی ہے اور یہ طاقت دی ہے کہ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے اور اس سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے۔
اس ایک ہزار ٹن کھجور کے لیے تیس اپریل تک پیشکشیں طلب کی گئی ہیں، کیا یہ تیاری رمضان المبارک کے لیے ہے۔ اگر رمضان المبارک کے لیے تو اب تک یہ سارا عمل مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ تیس تک پیشکشیں طلب کی گئی ہیں اس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ ٹھیکہ کسے دینا ہے(حالانکہ یہ فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہو گا) پھر اس کی خریداری کا مرحلہ آئے گا پھر سامان ہیڈ آفس پہنچے گا پھر ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹورز تک پہنچایا جایا گا اس عمل میں بھی کم از کم تین ہفتے ضرور لگ جائیں گے۔ اب اگر یہ کھجوریں رمضان المبارک کے لیے منگوائی جا رہی ہیں تو یقین کریں جب تک یہ کھجوریں ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹورز میں پہنچائی جائیں گی رمضان المبارک یا تو ختم ہو چکا ہو گا یا پھر ختم ہونے کو ہو گا پھر ایک ہزار ٹن کھجوروں کی خریداری کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔
دوسری اہم بات اس ٹینڈر میں کھجوریں امپورٹ کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ کہیں یہ گنجائش کسی کو سہولت پہنچانے کے لیے تو نہیں ہے، اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیںکیونکہ پاکستان میں اس طرح کی کھجوریں وافر مقدار میں موجود ہیں پھر امپورٹ کرنے کی گنجائش کیوں رکھی گئی ہے۔
تیسری اہم بات یہ کہ حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کو سبسڈی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سبسڈی دیتی ہے۔ کیا کھجور بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے اس سے بڑھ کر کیا سبسڈی کھجوریں امپورٹ کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے حکومت سبسڈی پرتعیش اشیاء کے لیے ہرگز نہیں دیتی پھر یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن نے کیسے سبسڈی سے کھجوریں امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں کھجور کی وافر مقدار میں موجودگی کے باوجود امپورٹڈ کی گنجائش کیوں رکھی گئی ہے پھر اسکی پیکنگ میں کرسٹل کا لفظ بھی کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ وہ طبقہ جو آٹا، دال، چینی سمیت دیگر چیزیں خریدتے ہوئے مشکل کا شکار ہوتا ہے وہ امپورٹڈ کھجوریں کیسے خرید سکتا ہے۔ جس نے امپورٹڈ کھجوریں خریدنی ہیں وہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کیوں آئے گا اس کے بڑے بڑے اسٹورز موجود ہیں جہاں امپورٹڈ کھجوروں کی کئی اقسام موجود ہوتی ہیں وہ یہ شوق وہاں سے پورا کر سکتا ہے۔
اس ایک ہزار ٹن کھجوروں کی خریداری کا سارا عمل بظاہر مشکوک ہے۔ اس کا طریقہ کار اور وقت کا انتخاب بھی نامناسب ہے یہ قومی خزانے کے ضیاع کے مترادف ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے چیئرمین ذوالقرنین خود اس کاروبار سے منسلک ہیں تو پھر یہ سارا عمل ہی مکمل طور پر مشکوک ہے یہ واضح طور پر مفادات کا تصادم ہے۔ تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ٹینڈر کی تحقیقات کریں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اس ٹینڈر کی ازخود تحقیقات کرنی چاہئیں اگر یہ کھجوریں درآمد کی جاتی ہیں تو یوٹیلیٹی اسٹورز پر کروڑوں کا بوجھ آئے گا۔ یہ کروڑوں روپے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ عام آدمی کو کھانے کے لیے آٹا نہ ملے اور یوٹیلیٹی اسٹورز والے کھجوروں کی درآمد پر کروڑوں خرچ کر دیں۔ فرض کریں کھجوریں درآمد نہ بھی ہوں پھر بھی اس اضافی خرچ کی کیا ضرورت ہے۔ ذوالقرنین خان کا شمار وزیراعظم کے ان قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ سعودی عرب میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ وزیراعظم پاکستان نہ خود کبھی کسی غیر قانونی کام کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کو غیر قانونی کام کرنے دیں گے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے کھجوروں کی درآمد کی گنجائش نکالنے کے معاملے پر وزیراعظم ضرور ایکشن لیں گے۔
موضوع وفاقی وزیر فواد چودھری کا بیان ہے جس میں انہوں نے انتہائی قابل، جید اور محترم مفتی منیب الرحمان کے حوالے سے قابل اعتراض الفاظ ادا کیے۔ ہم نے پہلے بھی اس حوالے سے لکھا ہے آج ڈاکٹر مشتاق احمد نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ "ملک میں مذہبی طبقے کو ہدف تنقید بنانا سب سے آسان ہے۔ علماء جیسے بھی ہیں ملک میں دین پھیلانے اور دین کا کام کرنے میں انہوں نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی ہزاروں مساجد و مدارس ملک میں لاکھوں طالبعلموں کو دین کی تعلیم کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ علمائ کے بارے سرعام ایسی زبان استعمال کرے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی خدمت میں رہتے ہیں ہمیں ان کے بارے میں کوئی بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ وزراء کو تو اور بھی زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ اگر علماء کی استعداد میں کہیں کمی ہے تو اس کی سب سے بڑی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ علماء کو آج بھی انکا جائز حق اور مقام نہیں ملا حتی کہ مدارس کے طلباء کو آج بھی استحصال کا سامنا ہے۔ ریاست دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے کتنے طالبعلموں کو اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک بھیجتی ہے یا انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے حکومت کے پاس کیا پلان ہے یقیناً کچھ نہیں ہے۔
فواد چودھری ایسی کھلی باتوں میں شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ مذہبی شخصیات کے حوالے سے اور بالخصوص مذہبی چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے طنزیہ جملے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ بڑی وزارت اللہ کی امانت ہے اللہ کے بندوں کے بندوں کی دل آزاری سے بچنا چاہیے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مذہبی اعتبار سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے کس حد تک عہدہ برآں ہو رہے ہیں اگر ہم مذہب کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ہمیں ان پر طنزیہ جملوں اور حملوں کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔