حکومتوں کی ریلیف کی مہم ، شفافیت دکھائی نہیں دے رہی: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) کرونا از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں اور وفاق سے آئندہ سماعت سے قبل کرونا وائرس پر پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے بیت المال اور زکوۃ کی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی اور اسلامی نظریہ کونسل سے رائے بھی طلب کر لی۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ صوبائی حکومتیں میڈیکل عملہ اور ڈاکٹرز کا مکمل خیال رکھیں۔ کسی بھی عمل میں شفافیت نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے؟۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کرونا کے حوالے سے کوئی طریقہ کار صوبوں اور وفاق کے مابین دکھائی نہیں دے رہا۔ بیت المال والوں نے عدالت میں جواب بھی جمع نہیں کرایا، اب بیت المال کیا کر رہا ہے۔ عدالت کو کیا معلوم۔ کسی بھی عمل میں شفافیت نہیں دکھائی دے رہی ہے، تمام حکومتیں ریلیف کی مد میں رقم خرچ کر رہی ہیں لیکن اس میں شفافیت دکھائی نہیں دے رہی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نو ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں۔ اس کی مانیٹرنگ ہونی چاہے، مانیٹرنگ سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتو ں کا ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئر ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا زکوۃ کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے، تنخواہ اور باہر دورے کرانے کیلئے نہیں ہے۔ یہی حال بیت المال اور زکوۃ کے محکمے کے ساتھ ہے۔ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا محکمہ زکوۃ نے کوئی معلومات نہیں دیں۔ محکمہ زکوۃ کے جواب میں صرف قانون بتایا گیا۔ زکوۃ فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتی ہے۔ اسی طرح بیت المال بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے۔ سندھ حکومت ہو یا کسی صوبے کی، مسئلہ شفافیت کا ہے۔ سب نے صرف یہ بتایا ہے کہ امداد دی گئی تفصیلات نہیں دی گئی۔ سارا پیسہ زکوۃ فنڈ کا ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیدا ہو تو ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے؟، سہیون شریف کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی۔ مزارات کا پیسہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے۔ ڈی جی بیت المال بھی زکو فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا افسروں کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں، جو لوگ پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا۔ قرنطینہ کے لیے ہوٹلز کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا؟ حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں، اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر سکریننگ سے بچ نکلتے ہیں۔ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر میں لوگ کیوں شورمچا رہے ہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر دیکھ کر آئے ہیں۔ جس پر سیکرٹری صحت نے کہا میں حاجی کیمپ نہیں گیا لیکن ایڈیشنل سیکرٹری خود ہوکرآئے ہیں، مجھے بھی جانے میں کوئی ایشو نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل اور پاک چائنہ سینٹر خود جاکر دیکھیں، تمام قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں، حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکیا پلازمہ انفیوژن سے واقعی کرونا کا علاج ممکن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ورلڈ بینک کے پیسے سے یونیسف سے خریداری کا کیا معمہ ہے۔ یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے سے دینے کی بات ہے۔ کسی صوبے اور محکمہ نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی۔ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے۔ کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف پانچ ہزار ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا قرنطینہ مراکز بنانے کی بجائے سکول اور کالجز کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جا رہا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا سکولوں کی تجویز اچھی ہے غور کریں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ کرونا وبا کے آتے ہی زکوۃ فنڈ سے 569 ملین روپے لوگوں میں تقسیم کیے گئے، رقوم کی تقسیم یو سی کی سطح پر موجود ڈیٹا سے کی گئی۔ جسٹس سجا د علی شاہ نے کہاکیا آپ نے کراس چیک کیا کہ کیا یہی لوگ وفاق سے 12ہزار بھی لے تونہیں رہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کراس چیک تو نہیں کیا جا رہا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن 11یو سیز کو سیل کیا گیاتھا انکی آبادی کتنی ہے ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ان 11یو سیز کی آبادی 6لاکھ 70ہزار کے قریب بنتی ہے۔ 12اپریل تک ان یوسیز میں 234 کرونا کے کیسز آئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اب یہ 234متاثرہ افراد کدھر ہیں؟ اورکس حالت میں ہیں؟۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا160لوگوں کو گھروں میں قرنطینہ میں رکھا ہے ، 45 لوگ ہسپتالوں میں ہیں جن میں سے 6کی حالت تشویشناک ہے ،21لوگ صحتیاب ہوچکے ہیں، جبکہ باقی آئیسولیشن میں رکھے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا رپورٹ میں آپ نے 1.56بلین روپے کا راشن تقسیم کرنے کا لکھا ہے پتہ چلا کہ اتنا بڑا راشن تقسیم بھی ہوگیا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلا، ویسے کوئی چھوٹی چیز کسی کو دیتے ہیں تو اخبار میں دو تصویر آتی ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا یقین سے کہتا ہوں کہ کرونا پر کوئی سیاست نہیں کی جا رہی ہے یہ راشن صرف ضرورت مند افراد کو ہی دیا جا رہا ہے۔ سماجی فاصلے مدنظر رکھتے ہوئے 4بجے سے 7بجے کے درمیان تقسیم کیا۔ یہ راشن ڈسڑکٹ ایڈمنسٹریشن اور یوسیز چیئرمین کے ذریعہ تقسیم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا یہ درست ہے کہ جو راشن تقسیم ہوا وہ ناقص تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا یہ بات درست نہیں ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا یہ سارے سوالات اس لئے ہیں کہ ساری باتیں ہمارے صوبے کے بارے میں ہی کیوں سامنے آتی ہیں۔ سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا تیس مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ڈسٹرکٹ ویسٹ میں بائیس ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا۔ راشن کی تقسیم کے لیے۔ کہیں سے گاڑیاں لی ہوں گی کہیں سے افراد نے اس راشن کو پیک کیا ہو گا کو ئی چیز بھی منظر عام پر نہیں ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ڈسٹرکٹ ویسٹ چھوٹا نہیں ایک یورپی ملک جتنا بڑا ہے، کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مانتے ہیں سندھ حکومت کو اس بار تشہیر کی ضرورت نہیں ہے لیکن تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہو گا۔ کیا آپکے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا دوسرے مرحلہ میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے بالآخر سندھ حکومت اٹھ ارب تک پہنچ ہی جائے گی۔ آٹھ ارب کے اعداد و شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں ہی کام کریں گی، جنکی ملازمت شروع ہو گی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہے گی، چیف جسٹس نے کہا کپڑے کی دکان کھولنے کے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے، فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کی سیفٹی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے، سندھ کے سیکرٹری صحت نے کہا سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے، سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی صرف اعداد وشمار ہی بتائے گئے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ میڈیکل ایسوسی ایشن نے نجی 8ہسپتالوں میں 2700 بستروں پر مشتمل قرنطینہ سینٹرز بنانے کی تیاری کی ہے اور اسکے لئے حکومت سے کسی بھی قسم کے امداد نہیں لی جائے گی۔ جس پر عدالت نے میڈیکل ایسوسی ایشن کے اس عمل کو سراہتے ہوئے انکی رپورٹ کو اپنے حکم نامہ میں شامل کر لیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرا ردیا کہ صوبائی حکومتیں میڈیکل عملہ اور ڈاکٹرز کا مکمل خیال رکھیں۔ ممکن ہو تو میڈیکل عملہ کو اضافی مراعات دی جائیں۔ عدالت نے ڈاکٹرز اور میڈیکل عملہ کے لیے خراج تحسین پیش کیا۔ سینٹری ورکرز کو بھی عدالت نے خراج تحسین پیش کیا۔ عدالتی حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں بعض صنعتیں کھولی جا رہی ہیں، جو بھی صنعتیں کھولی جائیں ان پر فیکٹریز ایکٹ کا معیار یقینی بنایا جائے، فیکٹری مالکان عملے کو کم نرخ پر کھانا دینا یقینی بنائیں، فیکٹری مالکان عملے کوصاف شفاف رہائش اور طبی سہولیات بھی فراہم کریں، توقع ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلے کرینگی، وبا سے نمٹنے کیلئے حکومتی ادارے آپس میں تعاون کریں، عدالت نے وفاقی، صوبائی اور گلگت بلتستان حکومتوں سے پیشرفت رپورٹس طلب کر تے ہوئے سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔