کرونا کیس بڑھ رہے ہیں:ظفر مرزا، 80فیصد مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں : ثانیہ نشتر
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کرونا وائرس کی صورتحال پر ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے تیسرے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپیکر نے اپوزیشن کو بولنے کا وقت نہیں دیا۔ لیگی رہنما مشاہد اللہ خان نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا رویہ متعبصانہ قرار دیا اور کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چھ بار بولنے کی اجازات دی گئی، اگر اپوزیشن کو نہیں سننا تو بیٹھنے کا فائدہ نہیں ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ وائرس سے پیدا اثرات کے حوالے سے مختصر اور طویل دورانیہ کی پالیسی بنانا ہوگی۔ لاک ڈائون سے غریب عوام کو روزگار کے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ ورکرز کو تربیت دینا ہوگی کہ وہ مقامی سطح پر آگاہی فراہم کریں۔ اس کے علاوہ میڈیا کو بھی کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ کمیٹی کو طویل دورانیہ کی پالیسیوں کے حوالے سے تجاویز پیش کرنا چاہیے۔ صحت اور معیشت کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی معیشت طویل لاک ڈائون برداشت نہیں کر سکتی۔ طویل لاک ڈائون سے ملک میں غربت کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وزیراعظم عمران کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ملک میں کرونا کے ٹیسٹ کی تعداد اضافہ ہورہا ہے۔ این 8 ماسک کی فراہمی کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ این 95 اور میڈیکل کٹس کی مقامی طور پر تیار کرنا شروع کردیں گے۔ جو ڈاکٹرز ہسپتالوں میں کام کررہے ہیں ان کیلئے این 95 ماسک لازمی قرار دے دیا ہے۔ ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان کی فراہمی کیلئے مزید اقدامات کررہے ہیں۔ قومی اور صوبائی سطح پر لاک ڈائون کی وجہ سے وائرس کے پھیلائو میں کمی آئی ہے۔ اب تک ملک بھر میں ایک لاکھ 5 ہزار ٹیسٹ کئے ہیں اس وقت 60 فیصد وائرس کا پھیلائو مقامی افراد سے ہورہا ہے۔ اگلے دنوں میں ٹریکنگ ٹیسٹ لانے کیلئے حکمت عملی تیار کرلی۔ چیئرپرسن احساس پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ اس وائرس سے 80 فیصد متاثر افراد میں علاقمات ظاہر نہیں ہوئیں۔ ہمیں بنیادی اصول مرتب کرنے کے بعد روزانہ کی زندگی کی طرف واپس آنا ہوگا۔ لاک ڈائون سے ملک کی اقتصادی صورتحال پر دبائو آرہا ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک لاک ڈائون کی صورتحال کتنی دیر مزید برداشت کرسکتا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے COVID-19 سے لڑنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے مابین وسیع البنیاد حکمت عملی کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے سینیٹر شبلی فراز کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کے ممبران علی محمد خان، سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف، محترمہ شاہدہ اختر علی اور ڈاکٹر نوشین حامد ہونگی جو پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا موجودہ ٹیسٹ کی گنجائش 3000 روزانہ سے 21000 ٹیسٹ روزانہ تک بڑھا دی گئی ہے۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بلتستان میں کرونا مریضوں کی صحتیابی کی شرح 70 فیصد ہے اور حکومت کی مدد سے اس میں تیزی سے بہتری آئے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مالی تعاون میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا ۔ وزیر صحت خیبر پی کے تیمور جھگڑا نے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے میں بڑے پیمانے پر کرونا وائرس کی جانچ کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کیسز ابھی تک سامنے آئے ان کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، تمام اضلاع میں کرونا کیسز موجود ہیں۔ وزیر صحت آزاد جموں و کشمیر اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے صحت بلوچستان نے کمیٹی کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے شروع کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ جموں کشمیر کے وزیر صحت نے بتایا تجویز دی کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس جو کہ کورونا کے مریضوں کو صحت کی سہولیات مہیا کر رہے ہیں کو لیول ون پرسنل پروٹیکشن کٹ مہیا کیے جانے چاہئیں۔ بلوچستان میں بچوں کے حفاظتی قطرے پلانے کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے بھی تجویز پیش کی۔وزیر صحت سندھ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ آنے والے ہفتوں میں کورونا وائرس کی صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، انہوں نے وائرس کی مقامی سطح پر منتقلی کو روکنے کے لئے سخت لاک ڈائون کی تجویز پیش کی۔ ڈاکٹرمرزانے کمیٹی کو بتایا کہ اب ہر ڈاکٹر اور پیرامیڈک کو لیول ون ون پی پی ای کٹ مہیا کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر ٹریکنگ ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ حکمت عملی نافذ کی جائے گی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ آئندہ دنوں میں لاک ڈان حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کی معیشت مستقل طور پر لاک ڈان کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ علی محمد خان نے حال ہی میں بی آئی ایس پی کی فہرستوں سے ہٹائے گئے مستحق افراد کے نام دوبارہ شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔ پارلیمانی امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان نے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ بیانیہ کی ضرورت پر زور دیا۔خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بیک وقت ملک کو صحت اور معاشی چیلنجوں کا سامنہ ہے ، لہذا دونوں چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک واضح پالیسی بنائی جائے۔ راجہ پرویز اشرف نے واضح پر لاک ڈان پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔ امیر حیدر اعظم ہوتی نے تجویز پیش کی کہ لاک ڈان پر مستقل حکمت عملی تیار کرنے کے لئے لاک ڈان کے دورانیہ اور کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پر غور کیا جائے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے پنجاب میں تبلیغی جماعت کے ممبران کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا اور ان کے فوری تدارک کے لئے زور دیا۔ وزیر برائے امور خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کمیٹی کی تجاویز کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اطلاعات اور اعدادوشمار کے مطابق رمضان المبارک کے مہینے میں کروناپھیلنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مولانا فضل الرحمن قومی میڈیا پر آگے آئیں اور اس سلسلے میں عوام کی رہنمائی کریں۔ سپیکر اسد قیصر نے اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں خصوصا پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان کی کاوشوں کو سراہا تاہم وزیر صحت پنجاب کی تعریف کی جنہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت متاثرہ مریضوں کے ٹیسٹ اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافہ کرچکی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ تبلیغی جماعت کے تمام ممبروں کو رمضان سے قبل ان کو ان کے گھروں بھیجنے کے انتظامات کر دیے جائیں گے۔