کسی علاقے میں انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں : چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ فراہمی ممکن نہ ہو سکی جس پر عدالت عالیہ نے حکم دیاہے کہ سیکرٹری داخلہ 28 اپریل سے قبل تحریری جواب جمع کرائیں، سیکرٹری داخلہ مجاز افسر مقرر کریں جو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں حاضر ہو،چیئرمین پی ٹی اے بھی آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کرائیں ۔پیر کو دور ان سماعت نمائندہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے 2016 میں پابندی لگائی تھی اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر سیکرٹری داخلہ کو نوٹس کر کے ان سے جواب طلب کر لیتے ہیں۔ عدالت نے حکم دیاکہ سیکرٹری داخلہ 28 اپریل سے قبل تحریری جواب جمع کرائیں، سیکرٹری داخلہ مجاز افسر مقرر کریں جو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں حاضر ہو۔ عدالت نے کہاکہ مجاز افسر بتائیں کہ پٹیشنر اور علاقہ کے دیگر رہائشیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ ۔ دور ان سماعت سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے جواب عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ۔دور ان سماعت سابقہ فاٹا کے نمل یونیورسٹی کے طالب علم سید محمد کی جانب سے عبد الرحیم وزیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے ۔ وکیل عبد الرحیم وزیر نے کہاکہ لاک ڈائون کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے طالب علم گھروں میں محصور ہیں،انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث پٹیشنر اور دیگر ہزاروں طالب علموں کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سابقہ فاٹا میں لاک ڈائون ہو یا آپریشن آپ انٹرنیٹ بند نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ کسی علاقے میں انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں،آرمی کی قربانیوں کی وجہ سے سب کچھ ممکن ہوا ہے،لیکن یہ کوئی ایسا نہیں کہ آپ انٹرنیٹ بند کر دیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ اگر اسلام آباد میں کچھ ایسا ہو تو کیا یہاں انٹرنیٹ بند کردیا جائیگا۔ بعد ازاں عدالت نے فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی۔