• news
  • image

ہم لڑتے رہیں گے کرونا پھیلتا رہے گا!!!!

کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں روز اول سے حکومت کی پالیسی میں اتفاق رائے اور واضح موقف کی کمی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا بھی پھیل رہا ہے، وفاق اور صوبائی حکومتوں میں اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایسا وقت جب سیاسی اختلافات، سیاسی مفادات، ذاتی پسند نا پسند اور لڑائیوں کو بھلاتے ہوئے متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہیے ہم ابھی تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، سیاسی بیان بازی کے ذریعے ابہام پیدا کرنے، نفرتیں پھیلانے اور لوگوں کی اموات کا باعث بننے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ اگر تو سیاسی شعبدہ بازیوں، بیان بازی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے پر طنز کرنے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے کرونا کا پھیلاؤ رک سکتا ہے تو سیاست دانوں کو صبح دوپہر شام یہی کام کرنا چاہیے اور اسی کام کو آگے بڑھاتے رہنے چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے کرونا کو روکنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہے، تدبیر کی ضرورت ہے، فکر کی ضرورت ہے، سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے، بر وقت اقدامات کہ ضرورت ہے، اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے، اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے یہ سب ہمارے پاس نہیں ہے۔ کرونا کے پھیلنے سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے، وسائل کی ضرورت ہے، سہولیات اور ساز و سامان کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے پاس یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری حیثیت اس عالمی وبا ء کی تباہ کاریوں کے سامنے کسی اپاہج سے زیادہ نہیں ہے لیکن ہم سب باتیں ایسے کر رہے ہیں کہ دنیا میں ہم سے زیادہ عقل مند، اچھی سوچ، دور اندیش کوئی نہیں ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں کرونا وائرس نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں سے یہی سبق ملتا ہے کہ مکمل لاک ڈاون کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ہم ہر مسئلے پر تقسیم کا شکار ہیں۔ مساجد کے کھلنے سے بازاروں کے بند رہنے تک ہر جگہ اختلاف ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں گھروں میں رہیں حکومت کہتی ہے کام کریں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں نمازیں گھروں میں ادا کریں علماء فرماتے ہیں مساجد کو کھولا جائے۔ اس سارے عمل میں حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ پالیسی دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ دار بھی حکومت ہے۔ اگر حکومت پیچھے چھپی رہے گی یا پیچھے بیٹھی رہے گی تو ہر طبقہ اپنے اپنے مفادات و مسائل کو بنیاد بنا کر مطالبات کرتا ہوا نظر آئے گا۔ بہتر یہی تھا کہ حکومت یکساں پالیسی بناتی اور اس پر بلا تفریق عملدرآمد کے لیے میدان میں آتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ابتدا سے ہی وفاق اور صوبوں میں مختلف حکمت عملی کی وجہ سے تقسیم پیدا ہوتی رہی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کرتے، مسائل کا جائزہ لیتے، وزرائے اعلی کو سنتے، پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں اور ماہرین سے تجاویز لیتے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر ایک متفقہ پالیسی دیتے اور پھر ڈٹ کر کھڑے ہوتے۔ معیشت سے زیادہ فکر انسانی جان کی کرتے۔ ہر سیاسی جماعت کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی انتخابات کی طرح اپنے حلقوں میں موجود رہتے اور اپنے حلقوں کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس لیتے، ریلیف کا کام کرتے، ضروث مندوں تک راشن پہنچاتے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بجائے سب نے اپنی اپنی دکان کھول رکھی ہے اور اپنا اپنا فلسفہ پیش کر رہے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمان مساجد کھولنے کے زبردست حامی تھے حکومت نے علماء کے ساتھ مذاکرات کے بعد مساجد کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بڑے علماء رمضان المبارک کے دوران نماز اور عبادات کے لیے گھروں پر رکنے کے پیغامات دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی رمضان المبارک کے دوران گھر ہی رک رہے ہیں اگر بڑے بڑے علماء گھر رکنے کو ترجیح دے رہے ہیں تو پھر ماہ مبارک کے دوران مساجد میں باجماعت، نماز تراویح اور دیگر عبادات کے معاملے پر عوام کو گھر پر رکنے کے لیے ترغیب دینا اور علمائ￿ کی ذمہ داری نہیں تھی۔ اگر علماء گھر رک نماز، عبادات و تروایح ادا کر سکتے ہیں تو ان کے معتقدین بھی گھروں میں رہ کر یہ سب کر سکتے ہیں۔ اس معاملے پر بھی پالیسی حکومت کو ہی دینی چاہیے تھی، اب بھی وقت ہے کہ اگر علماء گھر پر رک رہے ہیں تو نمازیوں کو بھی کرونا کے حملوں سے بچانے کے لیے پلان بی پر چلے جائیں یہ نہ ہو کہ ہمارے وسائل کم ہوتے جائیں اور کرونا بھی پھیلتا رہے۔ ایسا ہوا تو ایک طرف کرونا کے حملوں سے اموات کا خدشہ بڑھے گا اور غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کے مسائل بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ بھوک افلاس میں اضافہ ہوا تو اسے سنبھالنا حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ ملک میں بھوک و افلاس کا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان میں لوگ نچلی سطح پر بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔کراچی میں ڈاکٹرز نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اگر سختی نہیں کی جاتی تو حالات قابو سے نکل جائیں گے۔ اتنے مریض ہو جائیں گے کہ نہ ہمارے پاس جگہ ہو گی نہ وسائل بچیں گے جب متعلقہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں تو پھر حکومت کیسے سمجھے گی کہ ان حالات میں کیا فیصلہ کرنا ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد مریضوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے آنے والے دنوں میں یہ تعداد بڑھے گی یاد رکھیں کہ اموات بڑھ گئیں تو افراتفری پھیلے گی اور پھر بڑے نقصان سے بچنا ممکن نہیں ہو گا۔ سندھ کی وزیر صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی پر متاثرین کی تعداد بڑھے گی دوسری طرف گورنر سندھ عمران اسماعیل مارکیٹیں کھولنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ حکمرانوں میں یہ تقسیم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کم از کم اس موقعے پر تو سیاسی اختلاف بھلا کر کام کریں۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ گورنروں کو چاہیے کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں عوامی خدمت جاری رکھیں لیکن جہاں انتظامی امور کا تعلق ہو صوبائی حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔ یہ وفاق اور صوبے کی لڑائی نہیں یہ ہزاروں انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔
اب بھی وقت ہے وزیراعظم عمران خان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ سختی کریں، سختی کریں اور سخت فیصلے کرتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جائیں یہ نہ ہو کہ لاک ڈاؤن سے بچتے بچتے کرفیو لگانا پڑے۔ سخت فیصلے کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہا جائے۔ علماء مذہبی جذبات کے ساتھ ساتھ طبی ماہرین کو بھی سنیں اور انکی رائے کو اہمیت دیں۔


epaper

ای پیپر-دی نیشن