• news
  • image

کرونا کیخلاف جنگ میں حکومت کے ہمقدم

فرزانہ
موثر اوربہترین علاج کا انحصار معیاری تشخیصی ٹیسٹ رزلٹ پر ہوتا ہے۔پاکستان میں امراض کی تشخیصی ٹیسٹ رپورٹ کے لیے چند ایک تشخیصی لیبارٹریز مستند سمجھی جاتی ہیں جن میں ایک نمایاں نام چغتائی لیب کا بھی ہے۔کرونا کے خلاف جنگ میں قو می خدمت کے جذبے کے تحت چغتائی لیب کے اونرز کاحکومت کا ساتھ دینا قابل تحسین ہے ۔پاکستان میں کرونا وائرس ٹیسٹ کٹ سب سے پہلے چغتائی لیب نے ہی متعارف کروائی۔کرونا وائرس کی تشخیص اور اس سے بچاؤ کے حوالے سے ڈائریکٹر آپریشن چغتائی لیب ڈاکٹر عمر چغتائی سے کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر عمر چغتائی نے بتایا ’’کرونا وائرس سانس کا انفیکشن ہے جو ایک قسم کا نمونیا ہے ۔ لوگوں اس انفیکشن کی علامات میں شدت نہ ہونے سے مریض جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ بہت زیادہ کیسز میں کرونا کے متاثرہ افراد گھر میں ہی احتیاط کرنے سے صحت یاب ہو جاتے ہیںمگرکچھ کیسز میں خاص کر دل ، پھیپھڑوں اور شوگر کے مریضوں میں یہ بیماری زیادہ خطرناک ہے ۔ کرونا وائرس ایک سے دوسرے شخص میںمنتقل ہونے سے جلد پھیلتا ہے۔ جب اس بیماری کا مریض بولتا اور چھینکتا ہے تو یہ وائرس دوسروں میں منتقل ہو تا ہے۔ اس لیے صرف اپنے لیے احتیاط کرنا ضروری نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچاناہے۔اس لیے ہم سب کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہے۔ ‘‘
چغتائی لیب موجودہ صورتحال میں اپنا کیا کردار ادا کر رہی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر عمر چغتائی نے بتایا ’’کرونا وائرس نومبر2019 ء میں چائنا میں نمودار ہوااور دسمبر 2019ء میں اس نے چائنا میں وبائی صورت اختیار کی۔ چائنا کے بعد جب یہ وائرس دیگر ممالک اٹلی، فرانس، امریکہ اور ایران وغیرہ میں منتقل ہوا تو واضح تھا کہ کچھ وقت کے بعد یہ وائرس پاکستان بھی آئے گا۔ اس لیے بطور میڈیکل پروفیشنل کے ہماری ذمہ داری تھی کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے خودکو تیارکرتے۔ہم نے تین Stages پر کام کیا۔ سب سے پہلے ہم نے حکومت وقت کو اپنی اعزازی خدمات پیش کیں۔پنجاب حکومت کی ٹاسک فورس میںکرونا وائرس ایڈوائزی کمیٹی بنائی گئی جس نے کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ،PPE اورسمپل کوالیکشن ٹرانسپورٹیشن کی گائیڈ لائنزبنائیں۔کرونا وائرس ایڈوائزی کمیٹی میں ہماری پیتھالوجی لیب کے ہیڈ آف وائرلوجی ماہر وائرلوجسٹ پروفیسر وحید نے خدمات انجام دیں ۔پروفیسر وحید ہمار ے ساتھ ہیڈ آف وائرلوجی اور ہیڈ آف انفیکشن ڈزیز کے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے گائیڈ لائنزاور پالیسی بنانے میںحکومت پنجاب کے ساتھ بہت کام کیا۔ چغتائی لیب کا دوسرا اہم کام پبلک کو اس وائرس کے بارے میں آگاہی دینا تھا ۔ ہم نے بہت سے فورمز اور اداروں میں جاکر پبلک آگاہی مہم سیشن کیے، ڈاکٹرز کے لیے سیمینار کروائے اورمیڈیکل کالجز ،یونیورسٹیوںاور یہاں تک بڑی بڑی کمپنیوں کے HR ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ مل کر لوگوں میں کرونا وائرس آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی مثلاً کرونا وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟، کرونا وائرس سے بچائو کی احتیاطی تدابیر کیا کیا ہیں۔ایک ادارے کواس سے بچائو کی اجتماعی اورانفرادی طور پر کیا پالیسی اپنانی چاہئے مثلاً انفرادی طور پراپنی عادات کو تبدیل کرنے یعنی ہاتھ ملانے،گلے ملنے اورسماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے اور ان تمام باتوں کی آگاہی ہم پاکستان میںکرونا آنے سے دو ماہ پہلے سے دے رہے تھے۔ظاہر ہے ایک ادارے کا انفرادی طور پرآگاہی دینا اورحکومت کا اس بارے میںبتانابہت مختلف ہے۔کیونکہ اب اس آگاہی مہم کو ایک نیشنل پالیسی کی شکل دے دی گئی ہے اس لیے اب اس پر زیادہ عمل بھی ہو رہا ہے۔ہمارا تیسراکام یہ تھا کہ ہم کرونا وائرس کا ٹیسٹ جلد از جلد فراہم کریں۔اس وقت WHO کی بھیrecommendationیہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کریں۔ ٹیسٹ کرنے سے ہی پتہ چلے گا کہ کس کو وائرس ہے اور کس کو نہیں ہے۔ وائرس متاثرہ کوآئسولیشن میںرکھیںاور اس کا علاج کریں۔اس وقت کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ کامیاب جرمنی ہے۔کیونکہ جرمنی میں روزانہ تقریباً ایک لاکھ ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ کرونا وائرس زیادہ تیزی سے اٹلی،امریکہ اور برطانیہ پھیل رہا ہے اور ان ممالک میں ٹیسٹنگCapacity آہستہ آہستہ ڈویلپ ہوئی ہے۔آج یو کے اور جرمنی کی آبادی تقریباً برابر ہے۔دونوں فرسٹ ورلڈ کنٹریز ہیں لیکن ان میںپالیسی کافرق ہے۔ یو کے میںآج بھی روزانہ آٹھ سے دس ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیںجبکہ جرمنی میں روزانہ ایک لاکھ ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ ہماری امراض کی تشخیصی ٹیسٹنگ میں مہارت ہے اس لیے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے،اپنی قابلیت کے مطابق کرونا تشخیصی ٹیسٹ کٹ متعارف کروائی اوردوسروںکو بھی بتایا کہ یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو صرف امریکہ یا جرمنی کر سکتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے ہم نے مارچ کے آغاز میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ شروع کر دی تھی اور شروع میں کسی دن ایک اور کسی دن دو ٹیسٹ ہوتے تھے لیکن مارچ کی آٹھ دس تاریخ کے بعد سے لوگوں کا ٹیسٹ کروانے کی طرف رحجان ہوا۔ شروع میں ایسے لوگ بھی آئے جو بیرون ملک سے سفر کر کے آئے تھے اورآتے ساتھ ٹیسٹ کروانا چاہتے تھے۔ جب لاہور میں کرونا وائرس کے کیسز پازٹیو آئے تو یہ وہی لوگ تھے۔ہم اپنی لیب میں ایک دن میں آٹھ سو سے ہزار ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔ابھی تک کئی ہزار ٹیسٹ کر چکے ہیں ۔حکومت نے پہلے ہم سے کہا جس کا کرونا پازٹیو رزلٹ ہے اس کی انفارمیشن ہمیں دیں اور اب پچھلے کچھ چند دنوں سے فیڈرل ، پنجاب اور سندھ حکومت سمیت اسلام آباد کی ایڈمنسٹریشن نے بھی کہا ہے کہ آپ جتنے بھی ٹیسٹ کریںوہ پازٹیو ہیںیا نیگٹیو سارا ڈیٹا ہمیں فراہم کریں۔ اب ہم سارا ڈیٹا حکومت کو دے رہے ہیں۔پہلے لوگ اس بات پر ناراض ہوتے تھے کہ آپ ہمارا ڈیٹا کیوں دے رہے ہیں لیکن اب لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیںکہ جس شخص کا کرونا پازٹیو رزلٹ آجا تا ہے حکومت کو اس کے بارے میں انفارمیشن دینا مریض اور پورے معاشرے کے لیے بہتر ہے۔کروناوائرس ٹیسٹ کے لیے ناک سے سمپل لیا جاتا ہے۔ یہ وائرس ناک کے اندر اور پھیپھڑوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ کرونا ٹیسٹ کا نمونہ لینے والے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پروفیشنل پروٹیکشن کٹ پہن کر لیا جائے، کیونکہ کٹ پہنے بغیر نمونہ لینے والے میں کرونا وائرس منتقل ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ حکومت ہمیں جن کا ٹیسٹ کرنے کو کہتی ہے ہم ان کا ٹیسٹ کر رہے ہیں ۔اس کے علاوہ ہم نے بغیر چارج کیے بہت سے ایسے لوگوں کے بھی ٹیسٹ کیے ہیں جو پیسے نہیں دے سکتے۔گورنمنٹ کرونا کے مریضوں کے لیے بہت کام کررہی ہے۔ہمارے ملک میں بھی ٹیسٹنگ Capcity تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عمر چغتائی نے بتایا ’’اس کاز کے سب سے اہم فیکٹرز PPE ، ٹیم کی حوصلہ افزائی ، ٹریننگ اور سمپلز ٹرانسپورٹیشن ہے۔کراچی میں ہماری تین ایمبولینس سمپلز جمع کر رہی ہیں۔چاہے ایک سمپل ہو یا دوہماری ایمبولینس لے کر آتی ہے۔اگر آپ نے انسانیت کی خدمت کرنی ہے تو پھر آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ ایمبولنس کے پٹرول کا خرچا پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔ ہم نے کرونا PCR ٹیسٹ فیس بھی کم رکھی ہے۔حکومت سندس ہسپتال کراچی اور شوکت خانم ہسپتال کو ٹیسٹ کٹس دے رہی تھی اور وہ لوگوں کا ٹیسٹ فری کر رہے تھے۔ درحقیقت ہم اس ملک اورعوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔اس صورتحال میںزیادہ اہم کام زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرنا تھا جو ہم نے کیے اور کر رہے ہیں۔اب پنجاب اورنسٹ یونیورسٹی بھی ٹیسٹ کٹس تیار کر رہی ہیں۔ ہم نے نسٹ کے ساتھ مل کر کام کیا ان کو انفارمیشن اورسمپلز فراہم کیے۔ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں یہ چیزیںڈویلپ ہوں۔میں نے ذاتی طور پر آٹھ دس لیبارٹریز کوفون کالز اور میٹنگز کر کے بتایا کہ آپ ٹیسٹ کٹ کی تیاری کے لیے کس سے کون سی چیز لیں۔ ہم نے کرونا ٹیسٹ کے لیے ساری کٹس اورسارا سامان خود تیار کیا۔ہم سب نے مل کر کرونا سے نمٹنا ہے۔اگر ہمارے ملک کی قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اگلی آفت سے پہلے ہمیں اپنی ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی اور اپنے بائیو میڈیکل انجینئر پر انوسٹ کرنا ہے ،ان کو ڈویلپ کرنا ہے تو ہم ہر آفت سے نمٹ سکتے ہیں۔ بہرحال میں لوگوں کو یہ پیغام دوں گا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے غلط انفارمیشن مت پھیلائیں۔ اپنے گھروں تک محدود رہیں ۔احتیاطی تدابیر پرعمل کریں اوراپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن