• news
  • image

ہفتہ‘ یکم رمضان المبارک 1441 ھ‘ 25 ؍ اپریل 2020ء

وزیراعظم ملاقات کا موقع دیں‘ ایسا آئیڈیا ہے ‘سارا قرض اتر جائے گا: جاوید میانداد
جاوید میانداد کو تو دنیا اب تک ایک کرکٹر کے طورپر ہی جانتی تھی‘ لیکن انہوں نے ماہر معاشیات ہونے کا انکشاف کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور ساتھ ہی انہو ںنے ملک کا سارا قرض اتارنے کے ایک منفرد آئیڈیا کا تاثر دیکر کئی حکومتی وزراء کو بھی یقینا پریشان کر دیا ہوگا۔ ویسے وزیراعظم عمران خان اور جاوید میانداد ایک دوسرے کے ’’پوتڑوں‘‘ سے بھی واقف ہونگے۔ اگر جاوید میانداد نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے تو صرف وزیراعظم سے ملاقات کرنے کا بہانہ تو نہیں گھڑا ہوگا۔ ویسے بھی وزیراعظم جاوید میانداد کو ملاقات کا شرف بخشیں تو کوئی حرج نہیں۔ ایک ملاقات ہی ہے نا چند لمحوں کی۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ شبر زیدی کی طرح بھاری مراعات وصول کرکے ملکی معیشت کو اسی طرح بھنور میں چھوڑ کر چلتے بنیں ۔ ’’پنڈ نو اگ لگی …تے روڑی تے‘‘ والی پنجابی کہاوت ایسے ہی لوگوں پر صادق آتی ہے‘ لیکن جاوید میانداد کے بارے میں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بھاگیں گے نہیں بلکہ ’’کریز‘‘ پر ڈٹے رہیں گے اور شارجہ کپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کو بھی ایسا ہی چھکا لگائیں گے کہ تمام قرض اتر جائے گا۔ اس لئے وزیراعظم کو فوری طورپر جاوید میانداد کو ملاقات کا وقت دے دینا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ عالمی مالیاتی ادارے آئیڈیا کیساتھ ساتھ جاوید میاندادکو بھی ’’ہائی جیک‘‘ کر لیں۔
ورلڈ بنک یا آئی ایم ایف ان کو بھاری مشاہرے کی پیش کش کر دے اور جاوید میانداد ’’براستہ‘‘ آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک ’’نازل‘‘ ہو جائیں اور پھر قرض اترنے کی بجائے مزید چڑھ جائے۔ اس لئے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ خواہ یہ ملاقات نشتند‘ گفتند اور برخاستند اور اپنے ’’دکھڑے پھولنے‘‘ تک ہی محدود کیوں نہ رہے اور بقول میاں محمد بخش…ع
جی کردا تینوں کول بٹھا کے درد پرانے چھیڑاں
اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ فوری طورپر جاوید میانداد کو وزیراعظم ہائوس بلا لیں کیونکہ …ع
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ’’یارانے‘‘ دو
٭٭٭٭٭٭
ہندو سادھوئوں کے قتل میں مسلمان ملوث نہیں: ریاستی وزیرداخلہ
شہادت (گواہی) وہ ہے جو دشمن خود دے
ورنہ بھارت میں ہر بگاڑ کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فکر و دانش سے محروم اور گائے کے گوبر و پیشاب سے لتھڑی ہندو ذہنیت کا ہی کمال ہے کہ کرونا پھیلے تو مسلمان ذمہ دار‘ پولیو کی تشخیص ہو تو مسلمان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ اس طرح انسانوں پر تشدد کے واقعات ہوں تو مسلمانوں کو پھنسانے کی کوشش کی جائے جیسا بھارتی صوبہ مہاراشٹر میں دو ہندو سادھوئوں اور ان کے ڈرائیور کے قتل کو مذہبی رنگ دیکر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن سچ کو تو چھپایا نہیں جا سکتا۔ مہاراشٹر کے وزیرداخلہ انیل دیش مکھ نے کہاکہ ’’ہندو سادھوئوں کے قتل میں کوئی مسلمان ملوث نہیں۔ واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سیاست کرنے کا نہیں‘ کرونا سے لڑنے کا وقت ہے۔‘‘ کاش ریاستی وزیرداخلہ اپنے پردھان منتری مودی کے ذہن میں بھی یہ بات اتار سکیں کہ رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک ہی نقطہ ’’محرم‘‘ سے ’’مجرم‘‘ اور مودی سے ’’موذی‘‘ بنا دیتا ہے۔ اس سچ گوئی پر مودی سرکار کہیں انیل دیش مکھ کو بھی مسلمانوں کا ’’طرفدار‘‘ ہی نہ کہہ دے۔ مودی سرکار کے ظالمانہ طرز اور انتہاپسندانہ ہندو ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی بھارت میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اب مودی سرکار کس کس کا منہ بند کریں اور بقول ولی دکنی …؎
کس کس کا منہ موندوں سجن
کوئی کج کہے کوئی کج کہے
ورنہ مودی جس طرح انسانیت دشمنی میں انتہا پر ہیں اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ…؎
میں ہوں وہ ننگ خلق کہ کہتی ہے مجھ کو خاک
اس کو بنا کے کیوں مری مٹی خراب کی
٭٭٭٭٭٭
ایران میں اونٹ کے پیشاب سے کرونا کاعلاج کرنے والا عطائی گرفتار
کرونا کے علاج کیلئے پوری دنیا میں دوا سازی ہو رہی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ فرانس‘ روس اور جاپان سمیت ہر ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر اور پسماندہ ملک میں کرونا کی ویکسین تیار ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی عامل بھی کرونا کا علاج کرنے کے دعویدار ہیں جبکہ کئی نیم حکیم بھی شرطیہ علاج کے دعوے کر رہے ہیں۔ بھارت میں گائے کے پیشاب سے کرونا کے علاج کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ایران میں مہدی سبیلی نامی عطائی کو اونٹ کے پیشاب سے کرونا کا علاج کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پہلے تو ایک انار سو بیمار والی کہاوت تھی‘ اب لگتا ہے کہ کرونا کے علاج کیلئے جتنی دوا سازی ہو رہی ہے۔ ’’ایک بیماری سو علاج‘‘ والی کہاوت اردو ادب میں بھی اضافے کا باعث بنے گی۔
ویسے ایرانی عطائی اس لئے پکڑا گیا کہ وہ مریضوں کو سچ بتا رہا ہوگا کہ وہ اونٹ کے پیشاب سے علاج کر رہا ہے۔ اب پتہ نہیں کوئی اس سے صحت یاب بھی ہوا کہ نہیں‘ لیکن اگر وہی ویکسین تہہ در تہہ خوبصورت پیکنگ میں کسی ملٹی نیشنل اور معروف میڈیسن کمپنی کی طرف سے متعارف ہوتی تو ڈالروں میں کئی مہینوں کے پیشگی آرڈر پر بھی دستیاب نہ ہوتی۔
اب تک کرونا ویکسین کی تیاری کے جتنے دعوے کیے جارہے ہیں اور جہاں جہاں تجربات ہو رہے ہیں‘ اس سے تو مریضوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور پسماندہ دنیا سے لے کر ترقی یافتہ ملکوں تک ’’مسیحا بھی نقلی دوائیں بھی نقلی‘‘والا اعتقاد پختہ ہوتا جارہا ہے‘ اگر اس ایرانی ’’کیمسٹ‘‘ کی بھی کوئی لیبارٹری ہوتی تو وہ یقینا اونٹ کا پیشاب نہ رہتا‘ ایک سریع الاثر دوا بن جاتی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن