کرونا سانوں کجھ نئیں کیندا!!!
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کہتے ہیں کہ پہلے روزے میں عوام نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے حالانکہ رمضان المبارک کے دوران احتیاط کی ضرورت ہے۔ پہلے روزے کے موقع پر کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی معمول پر تو نہ تھی لیکن جس احتیاط کی ضرورت تھی وہ بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ بات طے ہے کہ اس معاملے میں عوام کو اس احتیاط پر بیانات کے ذریعے قائل نہیں کیا جا سکتا، لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے حکومت کو ہی سختی کرنا ہو گی۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں پھر بھی حالات بہتر تھے لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے کرونا وائرس کو اب تک پاکستان میں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ عوامی سطح پر کرونا کی تباہ کاریوں اور نقصانات کے باوجود سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔ عمومی طور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کرونا بھلے دنیا میں جتنی مرضی تباہی پھیلا دے ہمیں کچھ نہیں کہے گا۔ عوام کی لاپرواہی اور حکومتی تذبذب کی وجہ سے ابھی تک کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے واضح اور ٹھوس حکمت عملی ترتیب نہیں دی جا سکی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت یہ تو کہہ رہے ہیں کہ عوام نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس ذمہ داری کی توقع حکومت سے تھی اس کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔
دوسری طرف صدر پاکستان عارف علوی نے آئمہ کرام کو خط لکھ کر بیس نکات پر مکمل عملدرآمد کی درخواست کی ہے۔ صدر پاکستان وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کے ہمراہ مساجد کا دورہ کیا تھا انہیں پچاس سال سے زائد عمر کے افراد نماز تراویح میں نظر آئے اپنے دورے کے بعد انہوں نے امام صاحبان کو خط لکھ کر پچاس سال سے زائد عمر کے نمازیوں کو گھروں میں رہ کر نماز کی ادائیگی پر قائل کرنے کی درخواست کی ہے۔
جناب صدر واقف ہیں کہ ایسے معاملات میں حکومتی سطح پر سختی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ اصولی طور بیس نکات صرف مساجد نہیں سب شعبوں پر لاگو ہونے چاہئیں اور جب آپ مساجد پر پابندیاں لگائیں دیگر شعبے کھلے ہوں گے تو لوگوں میں بے چینی بھی بڑھے گی اور مذہبی طبقہ یہ سوال ضرور کرے گا کہ دیگر شعبوں میں آزادی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ماہ مبارک میں مساجد آنا مشکل بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا نہایت مشکل ہے کیونکہ ہم نسل در نسل بے احتیاطی میں زندگی گذارتے چلے آ رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس نظریے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے کہ ہمیں کچھ نہیں ہونا، جو ہو گا دیکھا جائے، جو احتیاط کرتے ہیں کیا وہ مرتے نہیں ہیں۔ ایسی سوچ کے ساتھ آپ مشکل سے مشکل حالات میں بھی کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کروا سکتے۔ اس کا حل صرف اور صرف سختی ہی ہے۔ گذشتہ دنوں بینک جانے کا اتفاق ہوا ہم لائن میں تھے ایک صاحب آئے انہوں نے ماسک نہیں لگایا ہوا تھا سیکیورٹی گارڈ نے انہیں کہا کہ بغیر ماسک کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے کی مصیبت پائی جے اندر کیوں نئیں جان دینا، میں انج ای جاواں گا، ہن ماسک بھل گیا آں، میں کیہ کراں، میں وی ڈیوٹی تے آں، تیسرا دن اے روز آنا آں اے اندر نئیں جان دیندے واپس کل دیندے نیں۔باہر کھڑے دیگر افراد نے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ماسک لے آئیں ورنہ وقت ضائع ہو گا آپکو اندر نہیں جانے دیں گے۔ وہ کہنے لگے ایویں ای مصیبت پائی نیں، ہر ویلے ماسک لائی رکھو، میرے کول کوئی پیسہ نئیں میں ماسک نئیں لے سکدا، کافی محنت کے بعد انہیں سمجھ آئی وہ گئے اور ماسک لے کر آئے۔ ایسے کئی واقعات ہمارے اردگرد روزانہ پیش آتے ہیں۔ ہمیں ایک جاننے والے بتا رہے تھے ان کے گھر کام کے لیے آنے والی خاتون کو وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر کام سے روک کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ ایک دن وہ خاتون آئیں اور کہنے لگیں باجی ایہہ وائرس سانوں کجھ نئیں کیندا، اسیں تیز مرچاں کھان آلے لوک آں، ایہہ گندے کھانے کھان پین آلیاں نوں لگدا اے، کم کرن دے او کجھ نئیں ہوندا۔
بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم کلمہ گو ہیں ہمیں کوئی وائرس کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہت سے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ سوشل میڈیا پر یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں کہ کرونا صرف مغرب کا پراپیگنڈہ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اب ایسی سوچ پر کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایک صاحب اپنے گاؤں جانا چاہتے تھے انہیں سمجھایا گیا کہ حکومت گھروں پر رکنے کی ہدایات جاری کر رہی ہے اور بچوں کو سکولوں سے چھٹیاں گھر میں رکنے کے لیے دی ہیں گھومنے پھرنے کے لیے نہیں دیں تو وہ کہنے لگے کہ دیکھیں گاؤں میں تو کوئی وائرس سے متاثر نہیں ہوا، وہاں لوگوں کو اس سے کچھ خطرہ نہیں ہے۔ ایک دوست اپنے گاؤں گئے واپسی پر بتانے لگے کہ کرونا کا شور صرف شہروں میں ہی ہیں گاؤں میں تو سب لوگ معمول کی زندگی گذار رہے ہیں وہاں کسی کو اس وائرس سے کوئی خطرہ نہیں ہے نہ لوگ اس سے کوئی خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔
اس طرز عمل اور سوچ کے بعد یہ سمھنا مشکل نہیں ہے کہ ہم کرونا کو کتنا سنجیدہ لے رہے ہیں کتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے اس جان لیوا وائرس سے بچنے کے لیے کس حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز لوگوں نے لاہور کی سڑکوں پر احتیاطی تدابیر کے پرخچے اڑائے ہیں اور اس لاپرواہی کی اجازت انہیں حکومت نے دی ہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کر کے کرونا کو گھروں میں گھسنے اور عوام میں دل کھول کر پھیلنے کی اجازت دی ہے۔
کیا ہم اپنے لوگوں کو نہیں جانتے، ہم وہیں پارکنگ کرتے ہیں جہاں نو پارکنگ کا بورڈ لگا ہوتا ہے، ہم وہیں کوڑا پھینکتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کوڑا پھینکنا منع ہے، ہم اسی دیوار کو گندا کریں گے جہاں لکھا ہو گا کہ اس دیوار پر لکھنا منع ہے، ہم وہیں ہارن بجاتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ ہارن بجانا منع ہے، ہم وہیں موبائل استعمال کرتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں موبائل کا استعمال خطرناک ہے، ہم وہیں سگریٹ نوشی کرتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سگریٹ نوشی منع ہے،
ہم وہیں تیز رفتاری کرتے ہیں جہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں تیز رفتاری منع ہے۔ اس تباہ کن تاریخ کے باوجود حکومت یہ سمجھتی ہے کہ احتیاطی تدابیر کے پیغامات اور آگہی مہم سے کام چل جائے گا اور لوگ ان پیغامات کو سننے کے بعد ان پر سو فیصد عمل کریں گے اور کرونا کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ایسے ہی سب کچھ عوام پر چھوڑا گیا تو پھر وہی حال ہو گا جو اب عوامی شعور کے لیے چلانے والی مہموں کا ہو چکا ہے۔ اللہ حکمرانوں کو عقل سلیم عطاء فرمائے اور عوام کو شعور عطاء کرے۔ آمین