18ویں ترمیم کا مکمل دفاع، حکومتی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے: اپوزیشن اعلامیہ
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن پارلیمانی جماعتوں کی طرف سے آئین میں 18ویں ترمیم کا بھرپور انداز میں دفاع کرنے کے اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے آئین میں 18ویں ترمیم پر ’’پسپائی‘‘ کے اشارات ملے ہیں۔ سردست وفاقی حکومت نے آئین میں 18ویں ترمیم کا پنڈورا باکس نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بیان پر اپوزیشن کی طرف سے شدید ردعمل کے بعد آئین میں 18ویں ترمیم کی تنسیخ نہیں کر رہی بلکہ حکومت ’’نیا نیب آرڈننس‘‘ جاری کرنے پر اپوزیشن سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی پہلے سے قائم کمیٹی کو دوبارہ ٹاسک دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سے اپوزیشن نے بھی نیب قانون میں ترمیم کے لئے مشروط طورپر تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن 18ویں ترمیم کی تنسیخ کے بارے میں حکومتی عہدیداروں کے بیانات پر سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے دوسرے روز حاصل بزنجو، پروفیسر ساجد میر اور اویس نورانی رابطہ قائم کیا اور 18 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی موو کا سخت جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے حقوق کے تحفظ پر اتفاق رائے کیا گیا۔ جب اپوزیشن کے رد عمل بارے میں ایک حکومتی عہدیدار سے استفسار کیا گیا تو کہا گیا اپوزیشن کی طرف سے چیخ و پکار اور واویلا قبل ازوقت ہے۔ فی الحال 18ویں ترمیم کی تنسیخ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہو گی تو اس معاملہ پر بات چیت کی جائے گی۔ اپوزیشن رہنمائوں سے رابطوں کے بعد مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اپوزیشن رہنمائوں نے 18 ویں آئینی ترمیم کا مکمل دفاع کرنے پر اتفاق کیا اور کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے حکومتی سازش کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کے بجائے اس پر عملدر آمدکو یقینی بنایاجائے، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حقوق کا ہرحال میں دفاع کیا جائے گا۔ فضل الرحمن نے کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی ایک شق کو ختم کیا جاتا ہے تو از سر نوآئین ساز پارلیمنٹ تشکیل دینا ہوگی، کس ایجنڈے کے تحت آئینی ترمیم میں ردوبدل کی باتیں کی جارہی ہیں؟ ایسے فیصلوں سے سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوگا۔ یہ حالات کسی بھی آئینی بحران کے متحمل نہیں ہوسکتے، اٹھارہویں ترمیم پارلیمنٹ سے اتفاق رائے سے پاس ہوئی ہے۔