جرائم اور پولیس
ایک دو دن پہلے لاہور کے فیکٹری ایریا میںمنشیات فروشوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے دو بے گناہ شہریوں کو قتل اور 6 کو زخمی کر دیا۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں کہ جرائم پیشہ افراد نے جن کے نام بھی مسلمانوں جیسے ہیں ، رمضان المبارک کے تقدس کا لحاظ کئے بغیر خون کی ہولی کھیلی ، گمان غالب یہ ہے کہ موت کے گھاٹ اُتارے جانے والے اور زخمی افراد بھی روزہ سے ہوں گے۔ ان بے گناہوں کا گناہ یہ تھاکہ وہ منشیات فروشوں کی قوم دشمن قبیح حرکتوں اور کاموں کو ناپسندکرتے تھے۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ ان کے کرتوتوں کی طرف پولیس کو بھی توجہ دلاتے ہوں۔
معاشرے میں منشیات کا پھیلائو قوم کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اُسے اخلاقی اور جسمانی لحاظ سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ پولیس بھی موجود ہے اور قوانین بھی لیکن منشیات فروشوں کے منہ آنا، جان کو ہتھیلی پر رکھنے کے مترادف ہے۔ منشیات کے بیوپاری انتہائی دیدہ دلیر اور نڈر ہو چکے ہیں تو دوسری طرف پولیس کے چند بااول اور جرأت مند افسروں اور جوانوں کو چھوڑ کر بیشتر اس قدر بزدل اور ایمان فروش ہو چکے ہیں کہ وہ نہ صرف خود منشیات فروشوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں بلکہ ایسے لوگوںکے مخبر بن جاتے ہیں جو منشیات کے خلاف ہیں۔ منشیات کی روک تھام ناممکن نہیں بشرطیکہ پولیس تہیہ کر لے کہ علاقے میں ایسے جرائم کے اڈے نہیں قائم ہونے دینا۔ مگر اب تو منشیات فروشوں کے نیٹ ورک اتنے منظم اور جرائم پوش اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ یقین نہیںآتا کہ حکومت ان لوگوںکو ’’نتھ‘‘ ڈال بھی سکے گی یا نہیں، ایسی ہی نوعیت کے جرائم پیشہ گروہوں اور پولیس کے آئے دن مسلح تصادم (پولیس مقابلے) ہوتے رہتے ہیں۔ اس میںپولیس کے جوان اور بعض اوقات ان کے افسر (انسپکٹر، ایس ایچ او وغیرہ) شہیدبھی ہوتے رہتے ہیں لیکن نہ صرف یہ کہ نیٹ ورک اپنی جگہ قائم رہتے ہیں بلکہ شہیدوں کا خون بھی رائگاں جاتا ہے۔ ہمارے ہاں، دیانتدار اور جرأت مند پولیس اہلکاروں کی کمی نہیں لیکن یہ صلاحیتیں صرف اُس وقت کارآمد ہو سکتی ہیں جب پشت پناہی مضبوط ہو، صدر ایوب مرحوم کے زمانے میں نواب امیر محمد خاں آف کالاباغ مغربی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے تو اس زمانے میںلاہور شہر میں اچھا شوکر والا کا طوطی بولتا تھا۔ میں نے ایک باخبر صاحب سے پوچھا ، اچھا (اسلم) کو شوکر والا کیوں کہتے ہیں اُنہوں نے تشریح کی کہ پھنیر سانپ (پھن دار ناگ) اپنے دشمن کو دیکھ کرمنہ سے جو خوفناک آواز نکالتا ہے۔ ا’سے ’’شُوک‘‘ کہتے ہیں، یہ شوکر اتنی غضب ناک ہوتی ہے کہ مخالف سنتے ہی ڈھیر ہو جاتاہے یا دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ پھنیر کی ایک شوکرکئی اسلحوں پر بھاری ہوتی ہے ، آمدم برسرِ مطلب ، نواب کالا باغ نے اچھا شوکر والا کو گورنر ہائوس آنے کی ’دعوت‘ دی ، کھانا وانا ہوا، اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ اچھا شوکر والا نواب صاحب کا ’’حسن سلوک‘‘ دیکھ کر من ہی من میں خوش ہو رہا تھا کہ چلو یہ بھی اچھا ہو گیا کہ ملک صاحب (گورنر) بھی اپنے ڈھب کے نکلے کہ اچانک ملک صاحب نے کلام کا رُخ بدلا، اپنی شہرہ آفاق مونچھوں کو تائو دیا (ملک صاحب کا مونچھوں کو تائو دینا بھی ’’پھنیر کی شوکر‘‘ سے کم نہیں ہوتا تھا اوراچھے شوکر والے سے پنجابی میں مخاطب ہوئے۔ اچھیا! ایہہ تے تینوں پتہ چل گیا۔
اے ناں کہ صدر ایوب نے مجھے صوبے دا گورنر بنا دتا اے ، تے ہُن تیری مرضی اے ایتھے لاہور وچ توں رہنا اے یا میں۔ یہ سنتے ہی شوکر والے کے اوسان خطا ہو گئے اور گھگیا کر بولا۔ جناب، اگلی صبح آپ مجھے لاہور میں نہیںپائیںگے اور واقعی ایسا ہوا۔ پھر اس کے بعد صوبے بھر کے ’’پھنے خانوں‘‘ کے کا ن کھڑے ہو گئے۔ ملک صاحب کا گورنری کا دور امن و امان کے لحاظ سے مثالی ثابت ہوا۔ لوگ آج بھی اُس عہدکو یادکرتے ہیں۔ واقعی یہ ایسا دور تھا کہ جس میں فقیروں کی کمائی لٹنے سے بچی رہی۔ اوپر بیان کی گئی داستانی ، شیخ سعدیؒ کی گلستان یا بوستان سے نہیں لی گئی۔ اس لیے راقم پر لازم نہیں کہ کہانی کا اختتام ’’سبق‘‘ پر کروں۔ البتہ اس کہانی سے ہمارے پلے تو یہ پڑا ہے کہ اگر حکمران ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرنے والے ہوں، تو جرائم پیشہ مافیاز بھوکے مر جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی مافیاز کی پولیس کو اطلاع دیتے ہوں یا سرِ راہ ہونے والے قتل کا عینی گواہ بنتے ہوں، اُن کاانجام بخیر نہیںہوتا۔ حقیقی جرائم کے مقدمات کا گواہ بننے کو، کوئی کیوں تیار نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ پولیس، ان لوگوںکی جان و مال کی حفاظت کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ قانون خواہ کتنے سخت بنالیں، مجرموں کو چوکوں میںلٹکانے کا بندوبست کر لیں، جب تک، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کرپٹ اور بزدل لوگ موجود ہوں گے ، ہر نوع کے جرائم ہوتے رہیں گے۔ ہم بغیر مقدمہ چلائے کسی کو سزا دینے کے حق میں نہیں لیکن بعض ایسے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیںکہ پولیس مقابلوں کی کراہت آمیز افادیت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ معاشرے میں پھیلے ہوئے گوناگوں مافیاز اور جرائم کے نیٹ ورکس نے سوسائی کا سکون لوٹ لیاہے۔ معاشرے کو ایسے لوگوں سے پاک کرنے کی ذمہ داری جن لوگوں پر عائد ہوتی ہے ، جب تک وہ جرائم کے خلاف کارروائیوںکو جہادنہیں سمجھیں گے کہ مارے گئے تو شہید، فاتح ہوئے تو غازی ، معاشرہ دہشت گردمافیازکے خوف و ہراس سے آزاد نہیں ہو سکتا۔