مکافات ِ عمل…؟
کرونا سے معمولاتِ زندگی میں کافی فرق آیا ہے۔ بہت کچھ نیا ہے اور بہت کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دیا ہے۔کرونا کیا ہے؟ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کی ایک شکل ہے۔ اس پر کوئی رائے دینا اگرچہ میرے لیے مشکل ہے۔ تاہم جو بھی عالمِ دین ہیں اُن کو چاہیے کہ اس کی تشریح کریں اور اپنی رائے سے نوازیں۔ میں کسی نئے موضوع کے حوالے سے ابھی غوروفکر کر ہی رہا تھا کہ ’’مکافاتِ عمل‘‘ میرے نئے کالم کی تحریک اور سوچ کا محور و مرکز بن گیا۔
مکافاتِ عمل ہے کیا؟ دینِ اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کا مکمل عقیدہ و ایمان ہے اور پختہ یقین بھی کہ انسان دنیا میں جو کچھ بھی کرتا ہے ۔ وہ بری نیت سے کرے یا نیک نیتی سے۔ بدی کر رہا ہو یا نیکی۔ اُسے اپنے نامۂ اعمال کے مطابق ہر حالت میں جزا و سزا کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں وہ جتنی بھی سزا پاتا ہے وہی ’’مکافاتِ عمل‘‘ہے۔ میرا ایمان ہے کہ انسان خواہ وہ عورت ہو یا مرد، بدی یا برائی کا نتیجہ دنیا میں ہی پا لیتا ہے۔ یہ ’’نتیجہ‘‘ جس شکل میں بھی ہو، ایک نہ ایک دن سامنے ضرور آتا ہے۔ جو بھی لوگ اسلام کی دی ہوئی ہدایات کیمطابق عمل کرتے ہیں ۔ صاف ستھری پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔یقینا اُن کیلئے جنت کے دروازے کھول دئیے جائینگے، جو گناہ گار ہونگے، جنہوں نے توبہ، استغفار کا راستہ اختیار نہیں کیا ہو گا، جہنم کی آگ انہیں اپنی آغوش میں لینے کیلئے بے تاب اور منتظر ہو گی۔لاہور سمن آباد میں ایک شخص کو دیکھا ۔ ادھیڑ عمر تھا وہ، اور پچاس سے کچھ ہی اوپر ہو گا۔ قد بڑھا ہوا، لگ بھگ ساڑھے پانچ فٹ کے قریب۔ لیکن کیا دیکھتا تھا کہ اُس کی زبان منہ سے باہر نکلی ہوئی ہے جس سے مسلسل رال بھی بہہ رہی ہے۔ وہ شخص لرزتا، کانپتا جا رہاہوتا۔ اُسے دیکھتا تو اُسکی حالت دیکھ کر بہت زیادہ افسوس ہوتا۔ اکثر دل گرفتہ بھی ہو جاتا، یہ منظر ہر دوسرے، تیسرے روز میری نظروں کے سامنے ہوتا۔ ایک روز کوئی واقف حال مل گیا۔ اُس سے اس شخص کی بابت پوچھا تو اُس نے پہلے تو کانوں کو ہاتھ لگائے، پھر بتایا کہ یہ ڈی سی آفس میں کلرک تھا۔ کسی سے بھی اچھی زبان میں بات نہ کرتا۔ نہ ڈھنگ سے پیش آتا۔ کام کے عوض اپنی بدمعاشی سے رقم (رشوت) بھی وصول کرتا۔ واقف حال نے کہا ، انسانوں کے ساتھ اس شخص کا غیر انسانی رویہ تھا۔ شاید اُسی کی آج اُسے سزا مل رہی ہے۔ اور وہ اس حال کو پہنچا ہوا ہے کہ زبان منہ سے باہر ہے۔ نہ کھا سکتا ہے، نہ پی سکتا ہے۔ زمانے بھر کیلئے عبرت کی بھیانک تصویر بن گیا ہے۔سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی ساتھیوں سمیت بھیانک موت کو بھی ’’مکافاتِ عمل‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اعلیٰ عدلیہ نے قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا کا حکم سنایا۔ جس پر عملدرآمد بھی کیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی عدلیہ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ بینچ ہی کے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے پھانسی پر عملدرآمد کے کچھ عرصہ بعد یہ انکشاف کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ بھٹو کو ملنے والی پھانسی کی سزا کا حکم جنرل ضیاء کے دبائو پر دیاگیا۔بھٹو کی پھانسی کے بعد عدالتی بینچ کے سربراہ مولوی مشتاق کی رحلت ہوئی اور اُنکے جنازے کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے صفحات پر رقم ہے۔ اُن کا جنازہ مال روڈ سے گزر رہا تھا تو شہد کی ہزاروں مکھیوں نے جنازے پر حملہ کر دیا۔ لوگ جسٹس صاحب کا جنازہ سڑک پر ہی چھوڑ کر بھاگنا شروع ہو گئے۔ وہاں لوگوں کی بڑی تعداد زخمی ہوئی۔ شہد کی مکھیوں نے جن کو کاٹاوہ درد اور تکلیف سے بلبلا اٹھے اور کراہتے دیکھے گئے۔ اُس وقت ٹی وی چینل تو تھے نہیں، جو چند اخبارات تھے انہوں نے اپنی رپورٹ میں اس ’’واقعے‘‘ کی تفصیلات بیان کیں جو ماضی کے اخبارات کے ریکارڈمیں شہ سرخیوں اور خبرکے مکمل متن کیساتھ آج بھی محفوظ ہیں اور کسی بھی سرکاری لائبریری کے ریکارڈ روم میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔خود ضیاء الحق کے جہاز کے ساتھ بہاولپور کے مقام پر جو ’’سانحہ‘‘ پیش آیا وہ بھی ایک سیاہ ترین باب، خوفناک حادثہ اور ایک بھیانک حقیقت ہے۔ اُسے بھی کہنے والے ’’مکافاتِ عمل‘‘ ہی قرار دیتے ہیں۔ انسان کسی کے ساتھ جب بھی بُرا کرتا ہے اُسے ایک نہ ایک دن وہ بھرنا پڑتا ہے۔ اِسے ہی تو ’’مکافاتِ عمل‘‘ کہتے ہیں۔اسکے علاوہ دنیا میں آپ ہزاروں واقعات دیکھتے ہیں جن کو آپ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کا نام دیتے ہیں۔دوسروں کیلئے مصائب، پریشانی اور مشکلات پیدا کرنے والے کبھی سکون سے نہیں رہ سکتے۔ آپ سب زندگی میں سکون چاہتے ہیں تو کرنا کیا ہوگا، دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں ورنہ ’’مکافاتِ عمل‘‘ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔لیکن پاک فوج نے پاکستان پر آنے والی ہر آفت زلزلہ، طوفان، سیلاب اور اب کروونا جیسی آفات کے موقع پر اپنا امیج پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بلند رکھا ہے۔