جناب اسد عمر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی!!!!
نوائے وقت کے صفحہ اول پر اشیاء خوردونوش کی سرکاری نرخنامے سے ہٹ کر فروخت کی خبر شائع ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق گراں فروشی کا سلسلہ عروج پر ہے۔ سرکاری نرخنامے تو نظر آتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کسی ایک جگہ بھی نظر نہیں آتا۔ بعض مقامات پر قیمتیں اس سے بھی زیادہ ہیں جو خبر میں بتائی گئی ہیں لیکن اکثر چیزیں تقریباً اسی قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ روز کا معمول ہے۔ سرکاری نرخنامے پر عملدرآمد نہ ہونا حکومت کی ناکامی ہے۔ نرخنامے پر عمل سے ناجائز منافع خوری پر قابو پا کر مہنگائی کو کم کیا جا سکتا ہے جبکہ قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کو بہتر بنا کر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مزید کمی کی جا سکتی ہے لیکن اس کام کے لیے محنت، توجہ، یکسوئی، لگن اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامقصد و بامعنی مذاکرات کے ساتھ حکومت کا سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور انہیں سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔
نوائے وقت کی خبر کے مطابق سبزیوں میں ایک کلو آلو نیا کچا چھلکا اول کی زیادہ سے زیادہ قیمت 55روپے مقرر کی گئی لیکن شہر کے بیشتر علاقوں میں دکانداروں نے صارفین کو 65روپے سے لے کر 70روپے تک فروخت جاری رکھی ،ایک کلو پیاز درجہ اول کی زیادہ سے زیادہ قیمت 37روپے مقرر تھی تاہم دکانداروں نے45روپے تک فروخت کیا۔ پیاز پچاس سے پچپن روپے بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔ ٹماٹر درجہ اول30روپے مقرر کی گئی تاہم پرچون سطح پر دکانداروںنے35سے 40کے درمیان فروخت جاری رکھی۔ ٹماٹر تیس روپے بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔
لہسن دیسی130کی بجائے180سے200،ادرک تھائی لینڈ230کی بجائے330سے 340روپے،ادرک چائنہ310کی بجائے360سے380روپے، ادرک چار سو روپے فی کلو سے زیادہ میں بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔کھیرا دیسی 27کی بجائے30سے 32،مٹر 100کی بجائے120سے 130روپے، کہیں کہیں مٹر دو سو روپے کلو بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔ ،اروی 93کی بجائے 120سے 130روپے اورگاجر چائنہ29کی بجائے38سے 42روپے کلو تک فروخت کی گئی۔ پھلوں میں سیب کالا کولو پہاڑی درجہ اول230کی بجائے310روپے، سیب کالا کولو پہاڑی درجہ دوئم 190کی بجائے230روپے، سیب ایرانی190کی بجائے250روپے،سیب سفید اول120کی بجائے170سے 180روپے،کیلا اول درجن 165کی بجائے220روپے،کیلا دوئم درجن100کی بجائے160روپے، سٹابری اول120کی بجائے170روپے، کھجور اصیل اول235کی بجائے350سے 260روپے،کینو فی درجن اول130کی بجائے260سے 280روپے،امردو درجہ اول140کی بجائے 180سے 190روپے،تربوزفی کلو 38کی بجائے45سے 50روپے،فالسہ 440کی بجائے 500سے 510اورلوکاٹھ 150کی بجائے 170روپے جبکہ آڑو410کی بجائے 530سے550روپے فی کلو تک فروخت ہوا۔ یہ تمام اشیاء اگر بڑے سٹورز سے خریدی جائیں تو پچیس تیس یا پچاس روپے فی کلو اضافہ یقینی ہے۔ پھلوں کی قیمتوں یقینی طور پر اس سے بھی شیادہ اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ مرغی کا گوشت کی قیمت لاک ڈاؤن کے شروع کے دنوں بہت کم ہوئی لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ساتھ ہی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ قیمتوں کے تعین کے اس پیمانے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایک سال میں شہری علاقوں میں دال مونگ میں 101 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ آلو کی قیمت 92 فیصد، دال ماش 68 فیصد اور دال مسور 47 فیصد مہنگی ہوئی، مزید یہ کہ اسی عرصے میں انڈے 44 فیصد اور پیاز 41 فیصد مہنگی ہوئی۔ ایک سال کے عرصے میں دال چنا 31 فیصد، بیسن 29 فیصد، چینی 27 فیصد، گھی 26 فیصد، کھانے پکانے کا تیل 22 فیصد، گندم 17 فیصد،ا?ٹا 15 فیصد جبکہ گوشت 14 فیصد مہنگا ہوا۔ ادویات کی قیمتوں میں 13 فیصد اضافہ ہوا۔ماہانہ بنیادوں پر اعداد و شمار کو دیکھیں تو مارچ کے مقابلے میں اپریل میں شہری علاقوں میں دال مسور 28 فیصد، دال مونگ 23 فیصد، دال ماش 14 فیصد، دال چنا 11 فیصد مہنگی ہوئی جبکہ ایک ماہ میں پھل18 فیصد، انڈے 15فیصد مہنگے ہوئے۔ مارچ کے مقابلے میں اپریل میں چینی کی قیمت میں 2.55 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ادارہ شماریات نے کہیں کہیں چیزوں کی قیمتوں میں کمی بھی ظاہر کی ہے لیکن مجموعی طور پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ یہ بتایا ہے کہ حکومت اس شعبے میں ناکام رہی ہے۔ اس اہم شعبے سے جڑے تمام ادارے عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صوبے اور وفاق کی سطح پر اس حوالے سے موثر پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ وزیراعظم عمران خان ذاتی حیثیت میں کوششیں ضرور کرتے رہے لیکن تمام چیزوں کی قیمتوں پر نگاہ رکھنا ان کے بس میں نہیں ہے بنیادی طور پر یہ متعلقہ شعبوں اور وزارتوں کی ذمہ داری ہے لیکن تمام تر اختیارات، طاقت اور وزیراعظم کی طرف سے فری ہینڈ ملنے کے باوجود مہنگائی میں اضافے نے سب کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔۔
وفاقی وزیر اسد عمر کہتے ہیں کہ مسلسل تیسرا مہینہ ہے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے۔ وزیر صاحب سے درخواست ہے سرکاری نرخ نامے پڑھیں پھر قیمت فروخت دیکھیں اور پھر حساب لگائیں کہ مہنگائی کم ہوئی ہے یا زیادہ ہوئی ہے۔ مہنگائی کی کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچنا چاہیے اگر فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچتا تو حساب کتاب کے ماہر افراد کی جمع تفریق سے صفحات تو کالے کیے جا سکتے ہیں لیکن عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس دوران یہ بھی دیکھیں کہ ریسٹورنٹ بند ہیں، میرج ہالز بند ہیں، باغات بند ہیں، شاپنگ مالز بند ہیں۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہیں ان حالات میں ڈیمانڈ میں کمی کے باوجود حکومت اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو کرنے میں ناکام رہے تو اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ لہذا ہمیں ان دنوں میں بھی روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کا مہنگے داموں فروخت ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ کرونا کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا فائدہ بھی عوام تک پہنچنا چاہیے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مجموعی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اب پٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے تو مجموعی طور پر مہنگائی میں کمی آنی چاہیے۔ امید ہے وزیراعظم عمران خان ذاتی حیثیت میں اس طرف توجہ دیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ اس شعبے میں ان کی ٹیم مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ بالخصوص گذشتہ ایک برس میں آٹا اور چینی بحران اور حالیہ دنوں کی مہنگائی نے ثابت کیا ہے وزیراعظم کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جا رہا اس مافیا کا پتہ لگانے اور اسے منظقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔