لاک ڈائون سے ایک کروڑ 80لاکھ افراد بیروزگار، 10لاکھ ادارے بند ہوجائینگے: اسد عمر
اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کرونا وائرس کی صورتحال اور ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار کی بندش کی وجہ سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو سے سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتحال کا اگر یورپ اور امریکا اور سپین سے موازنہ کریں تو ان کے مقابلے میں اتنی مہلک نہیں۔ پوری دنیا اس وباکے مکمل خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے اسے محدود کرنے پر توجہ دے رہی ہے کیونکہ اس کے خاتمے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ کرونا کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں، اس کا پھیلاؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ یورپ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک آہستہ آہستہ روزگار کے پہیے کو چلانے کے لیے بندشیں کم کر رہے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے ملک بند کر کے بیٹھ نہیں سکتے۔ اتوارکو کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر پریس بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کے باعث عائد کردہ موجودہ پابندیوں کا 9 مئی تک اطلاق رہے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت اجلاس ہوگا جس میں اہم فیصلیے جائیں گے۔ قومی رابطہ کمیٹی 9 مئی کے بعد کی حکمت عملی سے متعلق فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد صوبوں کی مشاورت سے فیصلے کریں گے۔ اسد عمر نے کہا گزشتہ چند دنوں میں کرونا وائرس سے اموات میں اضافہ ہوا ہے جو اچھی خبر نہیں، ہلاکتوں کی سرخ لکیر عبور ہو چکی ہے اور روزانہ 24 اموات ہو رہی ہیں لیکن یہ آبادی کے تناسب کے حساب سے پاکستان میں شرح کم ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستان میں بیماری اتنی مہلک ثابت نہیں ہوئی جتنی یورپ میں ہوئی، پاکستان کے مقابلے میں امریکہ میں 58 گنا اور برطانیہ میں 124 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ کرونا سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ٹریفک کو اجازت دیتے ہیں، اگر یہ ذہن میں بٹھا لیں کہ کرونا سے اموات کو صفر کرنا ہے تو اس کے لیے ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جو انسانوں کے لئے اتنے زیادہ مہلک ہوں گے جو کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔ یہ بیماری دنیا میں جتنی مہلک ہے اتنی ہمارے ہاں نہیں، لیکن معاشی نقصان زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن سے معاشی طور پر حکومت کو آمدنی میں 119 ارب روپے کا نقصان ہوا، روزگار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی۔ انہوں نے خدشہ کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار جبکہ 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لئے بند ہو سکتے ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ بندشیں کم کریں گے اور روزگار کے مواقع بڑھائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم اپنے صحت کے نظام کی صلاحیت کو بہت آگے لے گئے ہیں، ہمارے پاس اس وقت ایک ہزار 400 وینٹیلیٹرز موجود ہیں اور آئندہ دو ماہ میں اس میں مزید 900 کا اضافہ ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت کرونا وائرس کے صرف 35 مریض وینٹیلیٹرز پر موجود ہیں۔ جلد ہم وینٹی لیٹرز کی مقامی پیداوار کا آغاز کردیں گے۔ تقریباً روزانہ 14 ہزار کرونا ٹیسٹ کرانے کی صلاحیت ہے۔ ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام پوری طرح سے فعال بنایا گیا ہے۔ پاکستان کے لیے معاشی بندشیں کرونا وائرس سے زیادہ مہلک ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں کرونا سے اموات میں اضافہ ہوا ہے، صرف 6 دنوں میں روزانہ اوسطاً 24 اموات رپورٹ ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا میں کرونا وبا جتنی مہلک ہے پاکستان میں اتنی مہلک نظر نہیں آ رہی۔ اموات اور کیسز میں اضافہ ہوا ہے لیکن حالات بے قابو نہیں ہوئے، کراچی میں اس وقت بھی حکومتی لاک ڈاؤن پرعمل نہیں ہو رہا۔ مکمل لاک ڈاؤن ممکن نہیں، لوگوں کو بیماری کے ساتھ بھوک سے بھی بچانا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور معاشی بندشوں سے غربت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے اس لئے پاکستان کے لئے معاشی بندشیں کرونا وائرس زیادہ مہلک ہیں جب کہ تحقیقاتی اداروں کے مطابق بھوک اور غربت کے چیلنجز مزید بڑھیں گے۔ اسد عمر نے کہا کہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ملک کب تک بند رہے گا؟ عوام سے کہوں گا ہمیں اپنے صحت کے نظام کو مفلوج نہیں ہونے دینا اس لئے عوام سے اپیل ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور سب کو محفوظ رکھیں۔ وفاقی وزیر نے امید ظاہر کی کہ آگے سب کا ماہ رمضان اچھا گزرے گا۔ سب کو عبادت کا موقع ملے گا۔