فیاض الحسن چوہان، شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان!!!
ہم اخبار پڑھ رہے تھے فون ایک دوست کا فون آیا چودھری صاحب ٹی وی لگائیں اور دیکھیں وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان واپس آ گئے ہیں۔ چند روز قبل آپ انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے جانے کون کون سے ٹی وی چینلز اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہے پھر آپ نے اپنی تشویش کا اظہار سائرن میں کیا یقیناً سائرن کی آواز ان تک پہنچی ہے اور انہوں نے معمول کی سرگرمیوں شروع کر دی ہیں۔۔
ہم نے اس فون کو ماحول میں موجود سنجیدگی کو بڑھانے کے بجائے مزاح کا بہانہ ڈھونڈنے کا ذریعہ ہی سمجھا یقیناً ہمارا مقصد قطعاً تضحیک یا دل آزاری نہیں تھا اس کالم کا مقصد بھی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات کو ڈھونڈنا ہی تھا کیونکہ کرونا کے پھیلاؤ اور اس حوالے سے مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال کو عوام تک پہنچانے اور حکومتی اقدامات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے وزیر اطلاعات کا ہر وقت موجود رہنا نہایت اہم ہے۔ عالمی وبا کے دنوں میں میڈیا کے ساتھ قریبی رابطے میں رہنا اور حقائق کو اخبارات، ٹیلی ویڑن چینلز تک بہتر انداز میں پہنچانے اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ روابط کو بہتر بنانے کے لیے فیاض الحسن چوہان کا فرنٹ پر رہنا ضروری تھا۔ ان کی غیر موجودگی سے اگر ہم ایسوں کو فکر لاحق ہوئی ہے تو یقیناً ان کے ساتھی وزراء بھی پریشان ہوئے ہوں گے۔ خوشی ہے کہ انہوں نے ہمارا مشورہ مانا ہے ان کی واپسی اور معمول کی سرگرمیوں کا آغاز خوش آئند ہے۔ وہ راشن تقسیم کریں، عوام کے مسائل سنیں انہیں حل کریں، اپوزیشن سے بات چیت کریں، ان کے بیانات کو جواب دیں یہی ان کے لیے بہتر ہے۔ ابھی یہ لکھ رہے تھے کہ ایک اور دوست کا فون آیا کہنے لگا کہ چودھری صاحب جن دنوں وزیر اطلاعات نظر نہیں آ رہے تھے میں نے ٹک ٹاک والی خاتون سے فون کر کے پوچھا تھا کہ انہیں خبر ہے کہ فیاض الحسن چوہان کہاں ہیں تو اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کہ میرے ساتھ ان کی تصاویر کسی ایک ملاقات میں ہیں میری ان سے کوئی دوستی نہیں ہے کہ ہر وقت ان کے ساتھ رابطے میں رہوں۔ اچھا ہوا کہ وزیر اطلاعات ایک مرتبہ پھر ایکشن میں نظر آئے ہیں ان کی واپسی سے میڈیا کو ہر روز کچھ نیا موضوع ضرور ملے گا۔
شہباز شریف کی نیب میں پیشی اور عدم پیشی کے حوالے سے ان دنوں میڈیا میں خاصی بحث ہو رہی ہے۔ شہباز شریف کو بھی صحت کے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے وہ ایک خطرناک بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطرناک بیماری کے باوجود ان کا عدالت میں پیش ہونا قانون کے احترام کی نشاندہی کرتا ہے ان پر جو بھی مقدمات ہیں موجودہ حالات میں شہباز شریف کی صحت کو دیکھتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف کی وطن واپسی اور عدالتوں میں پیشی کا مطلب قانون کے سامنے سر جھکانا ہے چونکہ وہ بیمار ہیں اور ملک میں کرونا پھیل رہا ہے ان کے لیے احتیاط ہی بہترین حل ہے۔ کسی بھی قسم کا انفیکشن ان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ ان کی صحت کے سنجیدہ مسائل کو دیکھتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ ضرور نکالنا چاہئے۔ شہباز شریف کو بھی چاہئے کہ اس مشکل وقت میں سیاسی بیان بازی کے بجائے قوم کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کرونا سے متاثر ہونے والے کسی سیاسی جماعت کے حمایتی بعد میں اور پاکستانی پہلے ہیں اس وقت سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب کو متحد ہو کر کرونا کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سے پید ہونے والے مسائل سے بچنا ہے اور مالی طور پر کمزور طبقے کو مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کی جماعت کے کچھ لوگوں کی راشن تقسیم کرے اور عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لیے کوششیں خوش آئند ہیں۔
میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ایک رکن میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار سہولت کار تھے۔ میاں جاوید لطیف کا یہ بیان مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ سیاسی نفرت پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف چودھری نثار علی خان کو سیاسی نقصان پہنچانا ہے یقیناً جب مخالفین کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہتا تو وہ ایسی بے تکی باتیں ہی کرتے ہیں۔ چودھری نثار اس وقت وزیر داخلہ تھے اور احتجاج کرنے والے اس ملک کے شہری تھے جس ملک کے وہ وزیر داخلہ تھے اگر انہوں نے قانون کے مطابق احتجاج کرنے والوں کو ان کا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے تحفظ فراہم کیا ہے تو اس کا یہ مطلب کیسے ہے کہ وہ اس دھرنے کے سہولت کار تھے۔ میاں جاوید لطیف کا یہ بیان سیاسی نفرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تو کیا اس دھرنے میں موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی دھرنے ہوتے رہے کیا اس وقت ان کے وزیر داخلہ دھرنوں اور احتجاج کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود پنجاب میں احتجاج کرتے رہے تو کیا اس وقت وہ صوبے میں خود اپنی ہی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ ایسی بیان بازی ہی سیاسی لڑائیوں کا باعث بنتی ہے اکثر ایسے بیانات کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد ہوتا ہے یا پھر ایسے بیانات کسی کو خوش کرنے اور کسی سے سیاسی بدلہ لینے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم سیاسی پختگی کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانات کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔ کسی کو خوش کرنے کے بجائے اپنے ووٹرز کی خوشی کے لیے کام کریں اگر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج تک سیاست دانوں نے پارلیمانی نظام کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز ووٹرز کے بجائے اپنی جماعت کے بڑوں کی خوشی کو مقدم سمجھا ہے۔