دکانیں ، چھوٹی مارکیٹیں کھولنے کی اجازت، تعلیمی ادارے 15جولائی تک بند، بورڈ امتحانات منسوخ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ (9 مئی) سے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔ صوبوں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے پر مکمل طور پر اتفاق نہیں ہوا۔ صوبوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا جس کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کا فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ ٹرین آپریشن اور لوکل پروازیں بھی بدستور معطل رہیں گی۔ چھوٹی مارکیٹیں، محلے اور دیہی علاقوں میں دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سحری سے لے کر شام پانچ بجے تک دکانیں کھولی جا سکیں گی۔ اشیائے ضرویہ کے سوا تمام دکانیں ہفتہ میں دو روز بند ہوں گی۔ رات کے وقت دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ الیکٹرک اور سٹیل سے منسلک کاروباروں کو کھولا جائے گا۔ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کے دوران اشیائے ضروریہ کی دکانوں کو کھلا رکھا جائے گا۔ پائپ ملز، پینٹ مینوفیکچرنگ، سرامیکس، ٹائلز کی دکانیں کھلیں گی، الیکٹریکل کیبل، سٹیل اور ایلومینیم کی دکانیں، ہارڈ ویئر سٹور بھی کھول دئیے جائیں گے۔ اس بات کا فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جو جمعرات کو وزیر اعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا، پنجاب، خیبرپی کے، سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم آزاد کشمیر اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ26 فروری کو ملک میں کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا، ساری دنیا کی طرح پاکستان نے بھی لاک ڈاؤن کیا، کرونا وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، خوف تھا لاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوگا، لاک ڈاؤن سے عوام کو مشکلات درپیش تھیں، دنیا میں ایک دن میں ہزاروں لوگ مر رہے تھے، اللہ کا کرم ہے پاکستان پر دیگر ممالک کی طرح دباؤ نہیں پڑا، ہم نے اب آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ ہم نے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کیا اور عوامی مقامات کو بند کیا لیکن مجھے پہلے دن سے یہی خوف تھا کہ ہمارے حالات یورپ، چین سے مختلف ہیں اور ہم نے جو لاک ڈاؤن کرنا ہے وہ مختلف ہوگا کیونکہ یہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والا دیہاڑی دار طبقہ ہے اور ہمیں خدشہ تھا کہ اگر سب بند کردیا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا۔ ہم پوری دنیا میں حالات کو دیکھ رہے تھے کہ یہ وائرس کیسے پھیل رہا ہے، دنیا کے ممالک میں روزانہ ہزاروں لوگ مر رہے تھے اور اس سب کو دیکھتے ہوئے ہم نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) بنایا۔ اسد عمر کو این سی او سی کا سربراہ بنایا اور اس کے تحت روزانہ تمام صوبوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ڈاکٹرز سے تجاویز لے کر صورتحال کا جائزہ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس کی وہ لہر نہیں آئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگلے مرحلے میں ہماری کامیابی میں پاکستانیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا، اگر اس وقت ہم ایک قوم بن کر خود احتیاط کریں اور منظم طریقے سے ایس او پیز پر عمل کریں۔ وقت آگیا ہے کہ ذمہ دار شہری بن کر تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خیال میں پبلک ٹرانسپورٹ کو کھلنا چاہیے کیونکہ یہ ایک عام آدمی استعمال کرتا ہے اور اس سے غریب کو فائدہ ہوتا ہے لیکن صوبوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت یہ پوری دنیا کے لیے مشکل وقت ہے، پوری قوم دو نفل ادا کرے کہ ملک کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کو کرونا سے بھی بچانا ہے اور لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے افراد کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ساری توجہ کرونا کی جانب مرکوز ہونے سے تپ دق( ٹی بی) اور کینسر پھیل رہا ہے۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ لاک ڈاؤن سے غریب کم سے کم متاثر ہو لیکن ہمیں مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا علم تھا، خدشہ تھا ہسپتالوں میں جگہ نہ کم پڑ جائے، ابھی یہ نہیں کہہ سکتے وائرس کب زیادہ پھیل سکتا ہے۔ مزدور، دیہاڑی دار، سفید پوش مشکل میں ہیں۔ اس وقت تمام شعبے مشکل میں ہیں، جرمن چانسلر نے کہا ان کے عوام نے ذمہ داری لی ہے۔ سب کو حکومت سے مل کر کام کرنا پڑے گا، کیا لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے؟۔ وائرس تیزی سے پھیلا تو دوبارہ لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔ ایک قوم بن کر اگلے فیز میں جائیں گے۔ کوئی بھی فیصلہ صوبوں کے بغیر نہیں ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پیز کے تحت کھولنی چاہئے۔ لوگوں کو سیلف کورنٹائن کی طرف جانا ہوگا۔ ہمارے حالات چین اور یورپ سے مختلف ہیں، ہمیں چھابڑی والوں اور مزدوروں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہم نے کرکٹ میچز، پریڈ، تعلیمی ادارے بند کردئیے۔ کرونا وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ2 ہزار، برطانیہ میں روز 7سے 8سو لوگ مررہے تھے۔ ایک ایک ملک میں ہزار ہزار لوگ مررہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح کرونا کو عروج نہیں آیا، یورپ کے حالات دیکھیں، وہاں پر ہسپتال بھر گئے، جیسے برطانیہ پر وائرس سے دباؤ پڑا ویسا پاکستان پر نہیں پڑا، اللہ کا شکر ہے، ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان پر دباؤ نہیں آیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کرونا سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں ڈر تھا کہ پاکستان میں اموات تیزی سے نہ بڑھیں، یہ بھی خطرہ تھا ہسپتالوں میں کہیں جگہ ختم نہ ہو جائے۔ ملک بہت مشکل میں ہے، چھوٹے دکاندار مشکل میں ہیں، ، آج ہم نہیں کہہ سکتے کہ کرونا کا عروج کب ہوگا، کوئی نہیں کہہ سکتاکہ لاک ڈاؤن کھولنے پردوبارہ کرونا نہ ہو۔ عمران خان نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑاریلیف پیکج دیا، کئی ملکوں میں یہ ممکن نہیں تھا‘ ہماری برآمدات اورٹیکس وصولی کم ہوچکی ہیں، انھوں نے کہا کہ موازنہ بھارت سے کریں توہم نے بہت زیادہ پیکج دیا، بھارت سے زیادہ پاکستان میں پیکج دیاگیاہے، ملک میں کتنی دیرتک پیکج دے سکتے ہیں، ہمیں لاک ڈاؤن کھولنا ہے مگر عقل مندی سے، ہم اس فیزمیں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس میں پاکستانیوں کابڑاہاتھ ہوگا،اب پولیس جگہ جگہ جاکرچھاپے نہیں مارسکتی، حکومت ڈنڈے کے زورپرعملدرآمد نہیں کرائے گی ، تراویح اور ایس اوپی سمیت دیگرجگہوں پرپولیس تونہیں جائے گی۔ مشکل وقت سے نکلنا ہے،حکومت کاساتھ دینا ہوگا، مشکل دورسے نکلنے کے لئے عوام کوذمہ داری لینی پڑیگی، انہوں نے ٹائیگرفورس سے کہا ہے، شہریوں میں جاکر شعور اجاگرکریں۔ سپریم کورٹ کی رائے تھی کہ ایس او پیزکیساتھ ٹرانسپورٹ کھلنی چاہیے، ٹرانسپورٹ کھولنے پرصوبوں کوتحفظات ہیں ، صوبوں کے خدشات ہوں گے تو ایسے کوئی فیصلے نہیں کریں گے، پبلک ٹرانسپورٹ پر اسد عمر سے کہا ہے صوبوں سے بات کریں اور صوبوں سے کہا ہے اپنے فیصلے خود کریں۔انھوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک سے آنیوالوں کوقرنطینہ میں رکھنااورٹیسٹ کرناپڑتاہے، مشکل یہ ہے کہ ہمارے قرنطینہ بھرچکے ہیں، دنیا میں پازیٹوکیسزکوسیلف قرنطینہ پرزیادہ اہمیت دی جاتی ہے، سوچ رہے ہیں بیرون ملک سے آنے والوں کوسیلف قرنطینہ میں رکھیں، خود قرنطینہ میں رہنے والے بوڑھے افرادکے پاس نہ جائیں، ہمارافیملی سسٹم ایک طرف طاقت دوسری طرف خطر ہ ہے، ہم بزرگوں کی ذمہ داری لیتے ہیں یہ ہمارا فیملی سسٹم ہے ، سیلف کورنٹائن میں احتیاط نہ کرنے سے بوڑھے افراد کوخطرہ ہے اور لاک ڈاؤن میں نرمی سے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں کہ کہیں وباپھیل نہ جائے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اس عمر نے بتایا کہ این سی سی اجلاس میں 6 فیصلے کئے گئے تعمیراتی شعبے کے دوسرے فیز کو کھولنے کی اجازت ہوگی۔چھوٹی مارکیٹوں ، محلے اور دیہی علاقوں میں دکانیں کھولنے کی اجازت ہوگی۔ سحری کے بعد شام 5 بجے تک دکانیں کھلی رہیں گی لیکن رات میں بند رکھی جائیں گی۔ہفتے میں 2 روز اشیائے ضروریہ کے سوا تمام کاروبار اور مارکیٹیں بند رہیں گی۔ہسپتالوں کی مخصوص اور نشاندہی شدہ آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی) کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا کہ بار بار کہا جاتا ہے کہ معیشت زیادہ ضروری ہے یا انسانی زندگی زیادہ اہم ہے۔کچھ معاملات پر صوبوں سے اتفاق نہیں ہوا وزیراعظم چاہتے تو آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلے مسلط کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا‘ تمام فیصلے مشاورت کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ٹاک شوز میں لگتا ہے کہ وفاق و صوبے دست و گریباں ہیں، لیکن ایسا نہیں وزیراعظم چاہتے ہیں کہ تمام صوبوں سے مل کر فیصلے کیے جائیں۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ الیکٹرک اور سٹیل سے منسلک کاروباروں کو کھولا جائے گا۔ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کے دوران اشیائے ضروریہ کی دکانوں کو کھولا گی ہے ا، پائپ ملز، پینٹ مینوفیکچرنگ، سرامیکس، ٹائلز کی دکانیں کھلیں گی، الیکٹریکل کیبل، سٹیل اور ایلومینیم کی دکانیں، ہارڈ ویئر سٹور بھی کھلیں گے، مارکیٹ اور محلوں کی دکانوں کو بھی کھولنے کی اجازت دی ہے، ہفتے میں 2 دن دکانیں بند رہیں گی۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ سکول اور تمام تعلیمی ادارے 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے بورڈ کے امتحانات منسوخ کردیے گئے ہیں اور طلبا کو گزشتہ برس کے نتائج کی بنیاد پر اگلی جماعت میں پروموٹ کیا جائے گا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی امور معید یوسف نے کہا کہ ہم ہر ہفتے ساڑھے سات سو پاکستانیوں کو واپس لارہے ہیں جبکہ ایک لاکھ پاکستانی وطن واپسی کے منتظر ہیں۔ بیرون ملک سے واپس آنے والی بیشتر پروازوں میں کرونا کے کیسز سامنے آئے ہیں صرف خلیجی ممالک سے آنے والے کچھ مسافروں میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے کرونا وائرس ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ اس وقت وبا تقریباً ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کا انداز ہر جگہ الگ رہا ہے اور کچھ ممالک میں یہ آگ کی طرح پھیلی ہے۔کچھ میں تیزی نہیں دیکھی گئی۔جہاں وبا میں تیزی آئی تو یہ تسلی بخش ہے کہ ہماری صورتحال بہتر ہے۔ نظام صحت پر دباؤ آیا ہے اور مزید آسکتا ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ ختم ہوگئی ہے۔عمران خان نے کہا کہ کرونا وائرس تیزی سے پھیلتا ہے لیکن سماجی فاصلے سے وائرس کا پھیلنا رک جاتا ہے، وائرس سے ہمارا گراف ابھی اوپر جا رہا ہے، ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں تیزی سے وائرس نہ پھیلے۔ سوا لاکھ پاکستانی اس وقت باہر پھنسے ہوئے ہیں، جب وہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو انہیں ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے اور پھر قرنطینہ میں رکھنا پڑتا ہے، کوشش کر رہے ہیں کہ صوبوں سے بات کریں اور سیلف قرنطینہ کریں، ہمارے پاس کبھی قرنطینہ کی سہولیات اتنی نہیں ہوں گی کہ لوگوں کو لاکر قرنطینہ کریں، بہتر ہوگا لوگ خود گھروں پر آئسولیٹ ہوں۔وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں اصل تباہی اولڈ ہومز میں پھیلی ہے اور وہاں ہلاکتیں بہت ہوئیں اان کا کہنا ہے کہ تمام کاروبار ہفتے میں دو دن بند رکھے جائیں گے جب کہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز بھی کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔