تیاری کرلو! سندھ میں لوہا منوانے آرہے ہیں: شاہ محمود، بیان واپس لیں یااستعفیٰ دیں: بلاول بھٹو
اسلام آباد (نیوز رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان بالا کو بتایا کہ کرونا وائرس پر حکومت نے تمام صوبوں کی مشاورت سے حکمت عملی وضع کی ہے۔ بحیثیت قوم اس وبا کو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے۔ پارلیمنٹ اہم ہے، پورے ایس او پیز کے ساتھ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ ہمیں اجلاس بلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ سندھ ہمارا ہے۔ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت تھی۔ کراچی اندرون سندھ میں کہاں لاک ڈائون تھا۔ سندھ حکومت نے نیک نیتی سے کوشش کی۔ ان کی محنت کو سراہتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے درست فیصلے کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ دنیا سمجھ رہی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کرونا وائرس سب سے بڑا بحران ہے جس میں بڑی بڑی معیشتیں لڑکھڑا گئی ہیں اور ایسے ہی حالات میں پاکستان کو بھی وبا کا مقابلہ کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم بحیثیت قوم اسے شکست دینے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس وبا کا حل لاک ڈائون ہے، ہرگز نہیں یہ ایک جزو ہے۔ اس کا اصل حل ویکسین ہے جس کی تیاری میں 18 ماہ سے دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ منگل کو سینٹ اجلاس میں کرونا پر بحث کے دوران پالیسی بیان میں انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کو دفن کرنا پالیسی نہیں، کمزوریوں پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں، سندھ ایسے آرڈیننس لا رہا ہے جس کا اسے اختیار نہیں۔ پالیسی کے لحاظ سے کوئی الجھن نہیں بلکہ پالیسی واضح ہے اور حکمت عملی مرتب کی جاچکی ہے جسے مرتب کرنے میں خود ان کا ہاتھ ہے، جتنی پالیسیز اس وقت نافذ ہیں اس میں پیپلز پارٹی کا مکمل اِن پٹ شامل ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سب سے پہلے وزیراعلی سندھ کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے اور وزیراعظم ان کی بات کو سنتے ہیں اور نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ہر مثبت چیز کو شامل بھی کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کہاں ہیں تو میں بتادوں کہ وزیراعظم اسلام آباد میں ہیں اور روزانہ صبح سے شام تک صرف کرونا وائرس پر اجلاس کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی افراد ہیں اور سیاسی ضروریات کو سمجھتے ہیں، میٹنگ میں رویے کچھ اور ہوتے ہیں لیکن کیمرے کے سامنے آکر تیور بدل جاتے ہیں۔ ہم ان سیاسی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم بھی اسی دور سے گزرے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں اس لیے پی پی پی چیئرمین اور مسلم لیگ (ن)کی قیادت سے بات چیت کے بعد ہم نے ہی اجلاس بلایا۔ اجلاس بلانے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ اتفاق رائے نہیں ہورہا تھا خود ڈپٹی چیئرمین سینٹ اجلاس بلانے کے خلاف تھے اور مسلم (ن) کے نامور سیاستدان کہتے ہیں کہ ہر گز اجلاس نہ بلا ئیں تو پہلے اپنی صفوں میں فیصلہ تو کرلیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ شاہ محمود قریشی نے کہا خود ان کی قیادت اس مخمصے میں رہی کہ اجلاس بلایا جائے یا نہیں، ورچوئل بلایا جائے فزیکل بلایا جائے۔ انہوں نے کہا اجلاس ہوا جمعہ کو بھی ہوگا۔ اپوزیشن کی رائے لیں گے جو کام کی بات ہوئی اسے این سی سی میں لے جا کر اس کی پالیسی تشکیل دے دیں گے۔ متفقہ پالیسی نہ ہونے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بالکل لغو بات ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ قومی بحران ہے اور اس کے لیے قومی ردِ عمل کی ضرورت ہے اور نہ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ نقطہ چینی کی جاتی ہے کہ سندھ پر یلغار ہوگئی پیپلز پارٹی پر تلوار چل گئی، ہر گز نہیں سندھ ہمارا ہے، سندھ کا دارالحکومت ہمارا ہے آج بھی سندھ کے دارالحکومت میں پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعت ایم کیو ایم کی اکثریت ہے۔ آپ سندھ کے ٹھیکیدار مت بنیں اور ہم پورے پاکستان کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہوا کرتی تھی آج اس میں صوبائیت کی بو آتی ہے خدارا اس رویے کو بدلیں۔ راشن کی تقسیم میں اتنی دقت پیش آئی کہ سپریم کورٹ تک میں جواب دہی ہورہی ہے کہ اربوں روپے کا راشن کہاں گیا۔ وزیراعظم نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ لاک ڈان اشرافیہ نے کروایا ان کا کہنا تھا کہ ملک میں 2 طبقے ہیں ایک وہ جو یومیہ اجرت کماتا ہے اور جو اشرافیہ لاک ڈائون کی بات کرتی ہے اس کے پاس وسائل ہیں لیکن دوسرے طبقے والے بھوکے مر جائیں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نہیں کہتا ہے ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کو توسیع دی جاتی تو ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوجاتے، اگر اس لاک ڈائون کو برقرار رکھا جاتا تو 2 کروڑ 10 لاکھ کے بجائے 7 کروڑ 10 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے جاتے۔ سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے تاجروں کے ساتھ مذاکرات کیے، ناکام ہوگئے، کہا آن لائن کاروبار کرتے ہیں وہ پالیسی بھی ناکام ہوگئی جس پر تاجروں نے کہا کہ آپ کھولیں نہ کھولیں ہم پیر کے روز کھول لیں گے جس پر انہیں مجبورا درست نظر ثانی کرنی پڑی مساجد میں جانے سے روکا۔ لاٹھیاں برسائیں لیکن لوگ گئے پھر بٹھانا پڑا علمائے کرام کو تو ڈنڈے کے زور پر کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کرسکتے ہیں تو کرلیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ 18یں ترمیم کو دفن کرنے کی بات کی جارہی ہے تو یہ سیاسی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن میں واضح طور پر بتادوں کہ 18 ویںترمیم کو ختم کرنا ہماری حکمت عملی یا ہماری سیاست نہیں ہے بلکہ اس کے عمدہ پہلو ہمیں پہلے بھی قبول تھے اور اب بھی قبول ہیں۔ ہماری صرف یہ منشا ہے کہ اس ترمیم کے نفاذ سے اب تک 10 سالوں میں کئی تجربات ہوئے ہیں اس کی روشنی میں مل بیٹھ کر نظر ثانی کرلیں، ہمارے پاس تو 2 تہائی اکثریت ہے نہیں اور آپ کے بغیر ترمیم ہو نہیں پائے گی تو آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ کل بھی میں نے دہائیاں سنی کہ آرڈیننس واپس ہوگیا لیکن سندھ حکومت اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھے کہ وہ آرڈیننس کیا لارہی ہے کیا آپ ان چیزوں پر قانون سازی کرسکتے ہیں جن پر آپ کا آئینی اختیار نہیں ہے۔بلاول کو جو کہنا ہے کھل کر ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یوٹیلیٹی بلز ہم نے معاف کردیے گیس کے بلز ہم نے معاف کردیے آپ ہوتے کون ہیں بل معاف کرنے والے؟ آئین نے آپ کو اختیار نہیں دیا آپ ایسا کر کیسے سکتے ہیں۔آپ اگر اپنی مرضی اور سیاسی نشوونما کی کوشش کریں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ آبادی کے لحاظ سے سندھ کو زیادہ اشیا فراہم کی گئیں۔ جس کے اعداد و شمار میرے پاس موجود ہیں کیوں کہ سندھ بھی ہمارا ہے اور تیاری کرلو کہ جس طرح پنجاب اور خیبر پی کے میں ہم نے اپنا لوہا منوایا سندھ میں بھی اپنا لوہا منوانے ہم آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر پہلے ہی بہت مشکلات کا شکار تھا لیکن اب وہاں کرونا وائرس آگیا جس پر تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا گیا بلکہ لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارا جارہا ہے اور نئی حکمت عملی یہ اپنائی کہ مرنے والے کی لاش نہیں دی جاتی جس پر او آئی سی اور دیگر عالمی تنظیموں کو خطوط لکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ رنگ دینا چاہتے ہیں کہ احساس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے ایسا نہیں ہے بی آئی ایس پی چھوٹا تھا احساس کو ہم نے توسیع دی ہے، ہم نے یوٹیلیٹی بلزمیں سبسڈی دی ہے جس سے پورا پاکستان مستفید ہورہا ہے۔ میں دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اپنی تجاویز دیں ہم سنیں گے قبول کریں گے، لیکن اگر آپ سیاست کریں گے تو ہم بھی سیاسی زبان میں جواب دیں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کہ ان سنگین حالات میں حکومت کو بذات خود پارلیمان کا اجلاس بلانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اپوزیشن کو مجبورا ریکوزیشن کرنا پڑا۔ حکومت ایسا رویہ اختیار کرتی کہ قومی یکجہتی کی فضا پیدا ہوتی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہو نہ سکا بلکہ اس کے برعکس پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ جو بہت منفی سوچ ہے۔ حکومت کی جانب سے یکساں رویہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ تقسیم کی آوازیں سنائی دی گئیں۔ کابینہ کے 2، 3 اراکین کو یہ ذمہ داری دے دی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف وہی رویہ اختیار کریں جو عام طور پر انتخابات کے موقع پر سیاسی طور پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدا سے ہی حکومت کا رویہ منفی، غیر پیداواری اور تفرقہ انگیز رہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس وبا کے دوران کچھ ایسا فلسفہ پروان چڑھایا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف نفرت پروان چڑھائی جائے خواہ و جنرل اپوزیشن یا وہ ایک صوبہ جہاں ان کی حکومت نہیں وہاں ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایسے الزامات لگائے گئے گویا سندھ کی حکومت ملک دشمن ہے اور صرف مرکزی حکومت پاکستان اور اس کے عوام کا خیال رکھ رہی ہے، یہ رویہ قابل مذمت ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے لاک ڈائون کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کی اور پھر لاک ڈائون بھی ہوا۔ صوبہ سندھ کے خلاف منفی تاثر دیا جارہا ہے اور ان کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے یہ افسوسناک ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا موقع ہے کہ ہم اس قسم کی مہلک وبا کا سامنا کررہے ہیں اور اس میں صوبوں کو کہہ دیا گیا کہ آپ اپنا اپنا کام کریں۔ تو پھر کیوں پاکستان تحریک انصاف کے جونیئر اراکین روزانہ دوپہر 3 بجے کے قریب نفرت پر مبنی مہم چلاتے ہیں کبھی پنجاب سے کبھی سندھ سے اور روز اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے اور وہ جو باتیں کررہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکیلے ہیں۔ عوام کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہیئے وہاں روز حکومت کی جانب سے طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجاتا ہے ۔شیری رحمن نے کہا کہ آج ملک میں سب کچھ کھل چکا ہے تمام مارکیٹس بازاروں میں عید کی خریداری کی جارہی اور لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کررہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے اعلی عہدے سے مبہم اور غیر واضح پیغام دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک دن کہا جاتا ہے لاک ڈان ضروری ہے دوسرے دن کہتے ہیں سندھ نے اتنی جلدی کیوں کی اور تیسرے دن کہا جاتا ہے کہ لاک ڈان کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔کرونا وائرس کے حقیقی اعداو شمار بہت مختلف ہیں اس وقت ملک میں 10 ہزار افراد کیلئے 6 بستر دستیاب ہیں، ہمارے پاس آئی سی یو یونٹ ختم ہوجائیں گے تو بتائیں اس صورتحال میں کیا ہوگا۔انہوں نے کہ وزیراعظم پاکستان لاپتہ شخص ہیں، ان کی پالیسیز، ان کی جانب سے اتحاد اور ہمدردی کے الفاظ لاپتہ ہیں آج ہم سینیٹرز آئے ہیں۔ تو اس صورتحال میں وزیراعظم کہاں ہیں، ملک کون چلا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمان سے کیوں ڈر رہے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا، ہم تنقید نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم پر تنقید کی جارہی ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ آپ نے 18ویں ترمیم منظور کی ہے اس لیے آپ سب کچھ اپنے بل بوتے پر کریں، آج وفاق نے غلط کیا کل کو ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے لیکن جو غلطی امریکا اٹلی میں ہوئی وہ ہمیں نہیں کرنی۔جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے کہا کرونا کے معاملے میں پاکستان جیسی غیرسنجیدگی کسی نے نہیں دکھائی ۔ حکومت 'اکیلے پرواز' نہیں کرسکتی۔ تفتان میں قرنطینہ سینٹر کوئی کیمپ نہیں بلکہ ایک 'گودام' تھا۔ وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے مختلف پیغامات دے کر الجھن پیدا کی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے غریب طبقے کے لیے فراہم کی جانے والی مالی امداد پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک خاندان کے لیے 3 ہزار روپے ایک ماہ کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ شرح سود ختم کرے تاکہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرسکیں۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ارطغرل شو دکھا کر آپ مدینہ کی ریاست قائم نہیں کرسکتے'۔ پاکستان مسلم لیگ(ن )کے سینیٹر مصدق ملک نے کہاکہ حکومت بھوک اور موت کا تکرار کررہی ہے ،حکومت کا کام انکا سدباب کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سات سے دس دن میں اموات دوگنی ہوتی جارہی ہیں، ہمیں اس معاملے پر موثر پالیسی بنانا ہوگی ،عید کے بعد چار چھ ہفتے کا موثر لاک ڈائون کیا جائے۔ پورے پاکستان کو سرخ ییلو اور گرین زونز میں تقسیم کیا جائے، ریڈ زونز میں غریبوں میں رقم تقسیم کی جائے۔ مصدق ملک نے کہاکہ نجی سکولوں سے سفید پوش اساتذہ کو نکالا نہ جائے ایسی قانون سازی کیوں نہیں کرسکتے۔ ایوان بالا کے اجلاس میں انتقال کرنے والے سابق سینیٹرز، ایران سرحد کے قریب حملے میں فرنٹیئر کور کے شہید اہلکاروں اور کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں، ماہرین صحت، سینیٹر فیصل جاویدکی والدہ کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ‘ گورنر سندھ اور دو ارکان قومی اسمبلی سمیت کرونا سے متاثر دیگر پاکستانیوں کی صحت یابی کے لئے دعا کرائی گئی۔ سینیٹر مشتاق احمد نے دعا کرائی۔ بعد ازاں چیئرمین سینٹ سنجرانی نے ایوان بالا کا اجلاس جمعرات کی دوپہر 12 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ علاوہ ازیں سینٹ سیکرٹریٹ نے تین سینیٹرز میں کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ مشتبہ آنے پر انہیں سینٹ اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔ سینیٹر مولانا عطاء الرحمن، سینیٹر فدا محمد اور سینیٹر عابدہ عظیم نے گذشتہ روز ٹیسٹ کرائے تھے تاہم رزلٹ مشتبہ آنے پر انہیں دوبارہ ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کردی گئی ۔ سینٹ اجلاس میں شرکت کیلئے کرونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سینٹ اجلاس میں شرکت کرنے والے ممبران کی نشستوں میں ایک سیٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے اور تمام ممبران کی نشستوں پر ماسک ، گلوز اور سینیٹائزر موجود ایک قطار میں چار نشستیں رکھی گئی ہیں۔ دریں اثناء نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلاول کا غصہ جوان خون ہونے کی وجہ سے ہے۔ میں نے تو تاریخی حوالے سے کہا کہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ وفاق کی بات کی۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی اچھی ہے۔ سندھ ہماری اکائی ہے۔ اس وقت سیاست کا ماحول نہیں۔ بلاول کی باتوں کو درگزر کروں گا۔ ہم سب کا عمران خان کی ذات پر اعتماد ہے۔ بلاول کو بہت سی باتوں کا علم نہیں۔ گیلانی صاحب سے کہہ دیا تھا کہ میں نے وزارت نہیں لینی۔ حلف برداری کیلئے 30 منٹ تک انتظار کیا گیا۔ مجھے تو پٹرولیم کی وزارت دی جا رہی تھی جس پر لوگوں کی رال ٹپکتی ہے لیکن میں نے وزارت نہیں لینی تھی۔ جب استعفیٰ دے کر ملتان گیا تو وہاں میرا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ گھر سے جب تقریب میں شرکت کیلئے گیا تو معذرت کیلئے گیا تھا۔ بلاول ماضی کی سنی سنائی بات کر رہے ہیں۔ بلاول تو اس وقت کھیل میں ہی نہیں تھے۔ جب مجھ پر ذاتی حملے کئے گئے تو پیپلز پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
شاہ محمود
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائیت کو ہوا دینے کے الزام کو واپس لیں ورنہ استعفی دیں۔ وفاقی وزیر صاحب ہمیں پتا ہے آپ نے اپنا سیاسی لوہا کیسے منوایا ہے۔ وفاقی وزیر صاحب ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم بتادیں کہ کس نے آپ کو وزیراعظم بننے کا خواب دکھایا ہے۔ ہمیں سب پتا ہے، وفاقی وزیر صاحب آپ نے ہماری پارٹی کیوں چھوڑی تھی۔ وفاقی وزیر اب بھی پی ٹی آئی یا عمران خان کا نہیں اپنا سیاسی لوہا منوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان کی پسماندگی کی بات کرتا ہوں تو مجھ پر بلوچستان اور جنوبی پنجاب کارڈ کھیلنے کا الزام کیوں نہیں لگاتے؟ جب میں خیبرپی کے، فاٹا اور گلگت بلتستان کے حقوق کی بات کرتا ہوں تو کیوں نہیں کہتے کہ میں نے کارڈ کھیلا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی کوشش ہے کہ وبا سے لڑنے والے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ اگر پاکستان میں تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ کو ریلیف مل سکتا ہے تو شعبہ صحت پر بھی مناسب توجہ دی جائے۔ سندھ حکومت کنٹریکٹ پر بھرتیاں کررہی ہے، بعد میں ان کو کنفرم بھی کرینگے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی ایک ایشو بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو فوڈ سکیورٹی سے زیادہ خطرہ ہے۔ ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے صوبائی حکومتیں کام کررہی ہیں۔ جیسے کرونا میں وفاق صوبائی حکومتوں کو مینج نہیں کررہی ویسے ہی ٹڈی دل کے معاملے پر کیا جارہا ہے۔ ٹڈی دل صرف کسان کیلئے نہیں پاکستان کی فوڈ سکیورٹی کیلئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کی صورتحال میں ہمیں ہر معاملے کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ وفاق ہر موقع پر سیاست کرتا ہے لیکن کام کرنے کو تیار نہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم کو اجلاس میں آنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم اس وقت وزیرصحت بھی ہیں لیکن وہ نہیں آئے۔ وفاقی وزیر اس طرح کے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں کہ میرے بیان سے سندھ کی بوآ رہی ہے، اس کا مطلب کیا ہے، ہم تو ہر صوبے کی بات کرتے ہیں۔ بلاول نے کہاکہ میں وزیر خارجہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنا بیان واپس لیں اور اگر انہوں نے بیان واپس نہ لیا تو میں ان کے استعفے کا مطالبہ کروں گا۔ ہم اس طرح کی بیان بازی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اس طرح کی بیان بازی سے پاکستان کے وفاق کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس قسم کی بیان بازی سے آپ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کے بیان کو منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک کو بچانا چاہتے ہیں اور یہ شخص سندھ میں سیاست کا لوہا منوانے کی بات کر رہا ہے۔ ہر چیز کا مقصد سیاست نہیں ہوتا اور ہمیں اس عالمی وبا کے بحران کے دوران اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو اجلاس میں شرکت کر کے اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ حکومت کے سربراہ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مزدور گھر سے باہر جا کر کام کرے لیکن وہ اپنی بنیادی ذمے داری کی ادائیگی کے لیے قدم نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کی دوگنی ذمے داری بنتی ہے، وہ کم از کم جس بات کی تنخواہ لیتے ہیں اس بنیادی کام کو تو پورا کریں اور ان کا اجلاس میں شرکت نہ کرنا انتہائی غیرذمے دارانہ عمل ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی صحت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں وہ بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کا علاج چل رہا تھا۔ آصف علی زرداری کو صحت کے متعدد مسائل کا سامنا ہے اور انہیں ذیابیطس سمیت متعدد مسائل ہیں، انہیں اس صورتحال میں احتیاط کرنی چاہیے اور ہم بھی اس سلسلے میں احتیاط کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس سے نبرد آزما طبی عملے اور ڈاکٹرز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وفاق نے مارچ میں سندھ حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹڈی دل کے سپرے کے لیے جہاز بھیجیں گے لیکن ایسا بھی نہ ہو سکا۔ یہ لگاتار دوسرا سال ہے کہ ہم وفاقی حکومت سے ذمے داری ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کی زراعت اور معیشت پر ٹڈی دَل کے حملوں کا فوری نوٹس لے کر ٹڈی دَل کے سدباب کے لئے صوبوں کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لاک ڈائون غریبوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے امیر حاشیہ برداروں کے لئے ختم کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ صنعت کاروں کو فائدہ پہنچائیں اور تعمیراتی شعبے میں انیل مسرت اور ان جیسے دیگر لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے کرونا ریلیف آرڈیننس کے ذریعے سندھ کو عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی کے گورنر نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اب عوام کے لئے ریلیف میں تاخیر وفاقی حکومت کی طرف سے ہو رہی ہے۔ وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہوگئی ہے۔ وفاقی حکومت آئین کا نام اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے لیتی ہے۔ ہم نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کا آئین واپس لایااور ضیاء الحق کا نام اس سے نکالا۔ صدر زرداری نے اپنے سارے اختیارات وزیراعظم کو دے دئیے اور انہیں یہی بات بری لگتی ہے کہ آئین جمہوری ہوگیا ہے۔ چینی کی رپورٹ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ ایک تماشہ ہے اور پی ٹی آئی کبھی بھی احتساب کرنے میں سنجیدہ نہیں تھی۔ وہ چینی کا تماشہ اپنے کچھ لوگوں اور اتحادیوں کو قابو میں کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس چینی کے تماشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو وزیراعظم کرپٹ ہیں یا اپنے حاشیہ برداروں اور اے ٹی ایم کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں یا وہ بالکل بیوقوف ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت اٹھارہویں ترمیم کو نشانہ بنا کر ہمیں انتقام کا نشانہ بناتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت صرف دو یا تین ووٹوں کی اکثریت سے اٹھارہویں ترمیم کو نہیں چھیڑ سکتی اور اگر پی ٹی آئی حکومت نے اس وباء کے پردے میں اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑنے کی کوشش کی تو ہم اس کی ہر فورم پر مزاحمت کرنے کے لئے تیار ہیں۔
بلاول