مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم
اعتکاف کے ذریعہ فیوض و برکات تحریر: : جامعہ اشرفیہ لاہور
’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں یہ فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیاں اس کے لیے جاری کی جاتی ہیں ایسی نیکیاں جیسی کہ عام طور پر نیکیاں کرنے والے ہر قسم کی نیکیاں کرتے ہیں۔‘‘ رواہ ابن ماجہ)
اعتکاف کا لفظی مطلب ہے روکنا اور منع کرنا۔ چونکہ انسان اعتکاف میں اپنے آپ کو چند مخصوص باتوں سے روکتا ہے اس لیے اسے اعتکاف کہتے ہیں۔
اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے۔ یعنی بیسویں روزے کی شام کو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی کسی بستی اور محلہ میں سے ایک آدمی بھی اعتکاف کر لے تو سب کے ذمہ سے اتر گیا اور اگر بستی یا محلہ میں سے کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو وہاں کے تمام مسلمان گنہگار ہوں گے۔
مرد کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ بیسویں روزے کی شام کو مغرب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور پھر عید کا چاند نظر آنے پر مسجد سے باہر نکلے۔ اس دوران کھانا، پینا، سونا جاگنا، پڑھنا لکھنا سب کچھ مسجد کے اندر رہ کر کرے گا۔ البتہ ضروری حاجت کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ اگر بغیر عذر کے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ عورت کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے کسی کمرہ میں یا کسی کمرہ کے ایک مخصوص کونے میں ٹھہر جائے وہیں کھائے پیئے اور وہیں سوئے۔ صرف ضروری حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر جا سکتی ہے۔
یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اعتکاف کی حالت میں بالکل خاموش رہنا چاہیے‘ یہ غلط ہے بلکہ اعتکاف کی حالت میں بالکل خاموش ہو جانا اور خاموشی کو عبادت سمجھنا مکروہ ہے لیکن فضول باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ بس دین کی باتیں کرے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کی مکمل اجازت ہے۔
اب یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اعتکاف کی حالت میں کیا کرنا چاہیے تو اس میں عام حضرات کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ جو بھی نیک کام ہو وہ کریں‘ مثلاً نوافل پڑھیں‘ قرآن حکیم کی تلاوت کریں‘ درود شریف کثرت سے پڑھیں۔اور اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اور جو حضرات تعلیم یافتہ ہیں ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ روزانہ کم ازکم ایک پارہ تلاوت کریں۔ اور پھر اس کے بعد اسی پارے کی تفسیر اور ترجمہ کا مطالعہ کریں۔ اس طرح صرف تیس دن میں پورے قرآن حکیم کے اجمالی مطالعہ کی سعادت حاصل ہو جائے گی۔
جب ہم حضور اکرمؐ کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اعتکاف کے بڑے فضائل معلوم ہوتے ہیں جس سے ذہن میںاعتکاف کی اہمیت پیدا ہوتی ہے۔
چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وفات دی آپؐ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ اعتکاف فرماتی رہیں۔
ایک اور موقع پر ارشاد نبوی ؐ ہوا فرمایا جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے۔ تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم فرما دیتے ہیں جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔ بیہقی کی ایک حدیث میں بڑی اہم روایت آتی ہے ، رسول اللہؐ نے فرمایا جو شخص رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرے تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔
جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ اعتکاف کی حالت میں انسان مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے حاجت ضروریہ کے لہٰذا بہت سے ایسے کام ہیں جنہیں انسان مسجد سے باہر کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے لیکن اعتکاف کی حالت میں وہ کام نہیں کر سکتا مثلاً نہ کسی کی عیادت کے لیے جا سکتا ہے‘ نہ کسی جنازے کے ساتھ جا سکتا ہے نہ کسی کی خیر خواہی وغیرہ کے لیے جا سکتا ہے۔ تو اس کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
{المعتکف ہو یعتکف الذنوب ویجری لہ من الحسنات کلہا}ترجمہ:’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے تو محفوظ رہتا ہی ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے۔‘‘
اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کر کے نیکیاں سمیٹنے اور گناہ مٹانے کی توفیق نصیب فرمائے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،