کیا مہا یدھ ہوگا؟
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوئٹریس کئی بار اپیل کر چکے ہیں کہ کورونا کی صورت میں جو آفت دنیا پر اتری ہے اس کے دوران جنگیں بند کر دی جائیں۔ سیکرٹری جنرل کی اس اپیل پر کسی نے کان نہیں دھرا دنیا کے مختلف حصوں میں خون خرابہ جاری ہے۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایک طرف کورونا وائرس لوگوں کی زندگیوں کو نگل رہا‘ دوسری طرف سفاک اور سنگ دل حکومتیں اپنے ہی لوگوں کی زندگی عذاب کر رہی ہیں۔
پڑوسی ملک میں مودی حکومت نے ہندو ازم کی نشاۃ ثانیہ کا جو جھنڈا اٹھایا ہے اس سے مسلمانوں کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں رہا۔ گجرات میں 2000ء میں مودی نے صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کا جو قتل عام کیا تھا اس کے بعد مسلمانوں کا خون بہانا اس کا مشغلہ بن گیا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے تو مسلمانوں کے بھارت سے وجود کو مٹانے کے ایجنڈے پر عملدرآمد شروع کیا ہوا ہے۔ مودی کی پارٹی بی جے پی اور اس کے عسکری ونگ آر ایس ایس نے 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کرکے وہاں رام مندر بنانے کا اعلان کیا۔ گزشتہ تیس برس میں بھارت میں کانگریس کی حکومت بھی رہی ہے جس کے دوران رام مندر بنانے کی مہم ٹھنڈی پڑگئی۔ مودی جب سے دوسری ٹرم کے لیے وزیراعظم بنا ہے اس نے آئین قانون اور انسانیت کی ساری حدیں پھلانگنا شروع کر دی ہیں۔ اب مودی سرکار نے اپنی سپریم کورٹ سے بھی رام مندر بنانے کا اجازت نامہ لے لیا ہے۔ گزشتہ سال یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ وہ جلد حل کر دے گا پانچ اگست 2019ء کو اس نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور اسے اپنا اٹوٹ انگ بنانے کا اعلان کر دیا۔ تب سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں کشمیری جس ظلم وستم کا شکار ہیں اس پر پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر کئی دفعہ تشویش ظاہر کی ہے۔ اب تو امریکہ جو کہ بھارت کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے نے بھی کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یورپی یونین بھی کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر احتجاج کر چکی ہے۔ لیکن مودی کو کسی کی پرواہ نہیں وہ سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کا احتجاج صرف بیانات تک محدود ہے۔ عملاً اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسرائیل جو کچھ فلسطین میں کررہا ہے اس پر کس نے اسرائیل کا کیا بگاڑلیا ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان جو ایک سینئر سفارت کار رہے ہیں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ کے طور پر بھارت کی سفاکیوں کا پردہ چاک کرتے رہے ہیں کا خیال ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس مودی کی قیادت میں ہندوستان سے مسلمانوں اور ان کی تہذیب کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ وہ محمد بن قاسم کی آمد کے بعد خطے میں اسلام کی قبولیت کروڑوں ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مسلمان ہونے کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں۔ مودی اور آر ایس ایس کو یہ دکھ بھی چین نہیں لینے دیتا کہ کم وبیش سات سو سال تک ہندوستان پر مسلمانوں نے حکومت کی۔ یہ مسلمان حکمران افغانستان اور وسط ایشیاء سے آئے اور انہوں نے پورے ہندوستان پر حکومت قائم کی۔ انہیں یہ خلش بھی ہے کہ رام مندر کی جگہ بابری مسجد کیوں تعمیر ہوئی۔ محمود غزنوی نے سومنات کا مندر کیوں گرایا جو ہندووں کی پوجا پاٹ کا سب سے بڑا مرکز تھا۔تاج محل بھی مودی اور آر ایس ایس کے کرتا دھرتا لوگوں کو کھٹکتا ہے۔ یہ لوگ تاج محل کو بھی گرانے کا اعلان کر چکے ہیں انہیں دہلی کی جامع مسجد ‘ دیو بند کا مدرسہ اور کئی دوسری مساجد جو مسلمان حکمرانوں نے تعمیر کی تھیں چبھ رہی ہیں وہ ان مسجدوں کی جگہ مندر بنانا چاہتے ہیں۔
ہندوستان کو ہندودیش بنانے کے ایجنڈے پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے راستے میں بھارت کے پچیس کروڑ مسلمان رکاوٹ ہیں اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو راستے سے ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ گزشتہ دس ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ہے جس کی بدترین صورت حال غیر ملکی میڈیا یا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں دیکھ چکی ہیں۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ریاستی دہشت گردی کو تصویروں میں ڈھالنے والے تین کشمیری فوٹو گرافروں کو امریکہ کا جرنلزم کا سب سے بڑا ایوارڈ PULITZER PRIZE مل چکا ہے۔ دنیا مودی کے ظلم کی تصویریں دیکھ چکی ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کا خیال ہے کہ مودی سرکار برصغیر کو ہندو مسلم تہذیبوں کے ٹکراؤ یا تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مودی کو شاید اندازہ نہیں کہ اس خطے میں پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر کروڑ سے زیادہ بنتی ہے اگر افغانستان کے مسلمانوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ہندوئوں آبادی سے زیادہ بن جاتی ہے۔ مودی شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلمانوں اور ہندوںکی تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے صدر سردارمسعود خان خود کشمیری ہیں اور بھارت کی سیاست اور معیشت اور معاشرت پر گہری نظر رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں ایک یُدھ‘ ملک مہا یُدھ ہوگا جس میں ماضی کی طرح مسلمانوں کی تہذیب فتح یاب ہوگی مودی شاید اس بات کو فراموش کررہا ہے۔ کہ ماضی میں بھی ہندو اکثریت مسلمانوں کی یلغار کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی رہی ہے۔ ہندو ازم کی نشاۃ ثانیہ کا اس کا خواب چکنا چور ہوگا۔