• news
  • image

نیب اور شہباز شریف کے درمیان ’’آنکھ مچولی‘‘

جنرل (ر) پرویز مشرف نے بظاہر ’’بدعنوان عناصر‘‘ کے احتساب کیلئے قومی احتساب بیورو (نیب) قائم کر لیا تھا‘ لیکن اس ادارہ کو سیاسی جماعتوں کی قیادت سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔ نیب کے ہاتھوں ستائے ہوئے سیاست دانوں کے پاس جب بھی حکومت آئی تو انہوں نے بھی اس بے پناہ اختیارات کے حامل ادارہ میں دانستہ اصلاحات کرنے میں کوتاہی برتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کوئی حکومت نیب کے اختیارات کم کرکے اپوزیشن کو ’’کھل‘‘ کھیلنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ پیپلزپارٹی اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان سے نیب قانون میں ترمیم پر ’’بے نتیجہ‘‘ مذاکرات کرتی رہی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان نیب کے دائرہ اختیار‘ چیئرمین نیب کی اہلیت اور کیسز کی مدت کا تعین نہ ہونے کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے دوران نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ ہو سکی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو بھی بات ’’نشتند‘ گفتند اور برخواستند‘‘ سے آگے بڑھ نہ سکی۔ دونوں جماعتیں اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کوشش رہی کہ نیب آرڈیننس میں ایسی ترمیم کی جائے جس میں آصف علی زرداری کے خلاف پرانے کیسز کھولنے پر کوئی قدغن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں نیب آرڈیننس میں کوئی ترمیم نہ کی جا سکے۔ آج دونوں جماعتوں کے قائدین کی اس قانون کی وجہ سے مہینوں ضمانت نہیں ہو پا رہی اور وہ نیب کے شکنجے میں چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جو کافی عرصہ نیب کی تحویل میں رہے کورونا وائرس کے باعث پاکستان واپس آئے تو نیب نے ان کا’’ تعاقب‘‘ شروع کر دیا اب تک انکی تین بار نیب ہیڈکوارٹرز میں طلبی ہو چکی ہے اور انہیں چوتھی بار 2جون2020ء کو طلب کر لیا ہے۔ ایک بات واضح ہے ’’علیل ‘‘شہباز شریف کو بار بار نیب میں طلب کر کے انہیں دبائو کی حالت میں رکھا جا رہا ہے ۔ حمزہ شہباز جو پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں ’’جرات و استقامت ‘‘ سے جیل کاٹ رہے ہیں ۔ میاں شہباز شریف ان دنوں ’’گرم پانیوں ‘‘میں ہیں انکے خلاف جہاں آئے روز نئے مقدمات بن رہے ہیں۔ وہاں ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا جا رہا ہے۔قبل ازیں ڈیلی میل لندن میں شائع ہونیوالے سکینڈل کے تناظر میں میاں شہباز شریف کیخلاف الزام تراشی کی جا چکی ہے۔ سر دست میاں صاحب نے شہزاد اکبر کیخلاف برطانوی عدالت سے رجوع نہیں کیا تاہم انہوں برطانیہ کی ہائی کورٹ میں ڈیلی میل کے رپورٹر کیخلاف دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ ’’ذرائع ‘‘ کے حوالے سے ایک خبر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیب نے شریف خاندان کیخلاف نئے ریفرنس کی تیاری شروع کر دی ہے چونکہ اس دشت کی ’’سیاحت‘‘ میں نصف صدی گذری ہے لہذا مجھے معلوم ہے کہ یہ ‘ ’ذرائع ‘‘ کون سے ہوتے ہیں بہر حال مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب حکومتی یلغار کا ہر وقت جواب دینے کیلئے تیار ہوتی ہیں۔
اب نیب نے میاں شہباز شریف کو چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیس میں شامل تفتیش کرتے ہوئے تحریری سوال نامہ بھجوا دیا ہے ۔ نیب ملتان چولستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی 14 ہزار400 کینال زمین کو لال سوہانرا نیشنل پارک کے 144 متاثرین کو الاٹمنٹ کی انکوائری کررہا ہے یاد رہے کہ میاں شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 ء میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کیلئے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کی کاسا کمپنی کو جو پیراگون کی پروکسی کمپنی تھی کو مذکورہ ٹھیکہ دیا۔ میاں شہباز شریف کو اکتوبر 2018 میں نیب نے حراست میں لیا تھا اور طویل عرصے تک جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ئی ملی۔ نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر رہتے ہوئے ضلع چنیوٹ کے نکاسی آب کا نظام تعمیر کرنے کی ہدایت دی تھی جس کا استعمال انکے بیٹوں کی ملکیتی رمضان شوگر ملز نے کرنا تھا۔ شنید ہے عید الفطر کے بعد میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت اپوزیشن کے رہنمائوں کو نیب اپنا’’ مہمان ‘‘ بنانے والا ہے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب آرڈیننس میں ترمیم پر رابطے ہورہے ہیں۔ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن نے رابطوں کی تصدیق کی ہے لیکن حکومتی حلقوںکی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے ۔ حکومت آئین میں 18ویں ترمیم کے لئے نیب آرڈننس میں ترمیم پر تیار کرہے اپوزیشن بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی تجویز نہیں آئی۔ مسلم لیگی ذرائع نے بتایا ہے کہ دو اڑھائی ماہ قبل حکومت سے مذاکرات کے دوران 15نکات پر مشتمل ایک مسودہ دیا تھا اگر حکومت اس مسودہ پر بات کرنا چاہتی ہے تو ہم اس سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں ۔ شنید ہے حکومت بھی نیب کے اختیارات کم کرنا چاہتی ہے نیب قانون میں ترمیم کے لئے بعض حکومتی ارکان کا بھی دبائو ہے۔ 50 کروڑ سے کم کی کرپشن پر نیب کارروائی نہیں کر سکے گا، اپوزیشن چاہتی ہے کہ منتخب نمائندوں کا ٹرائل اسی صوبے میں ہو جہاں سے وہ الیکشن جیتیں گے، حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو گیا تو چیئرمین نیب سے ملزمان کی گرفتاری کا اختیار واپس لے لیا جائے گا جب کہ ملزمان کو 90 دن حراست میں رکھنے اور کسی مقام کو سب جیل قرار دینے کا اختیار بھی ختم کردیا جائے گا۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد عدالت ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکے گی اور اسے ضمانت لینے کا اختیار بھی ہو گا۔ نیب 5 سال سے زائد پرانے کھاتے بھی نہیں کھول سکے گا یہ وہ نکتہ ہے جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث بات آگے نہیںبڑھ سکی تھی۔ شنید ہے وزیراعظم عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو اپوزیشن سے بات کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 18ویں آئینی ترمیم میں وفاق کی مرضی کے مطابق مزید ترمیم ہوتی ہے یا نہیں‘ سر دست کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر نیب قانون میں ترمیم کو 18ویں آئینی ترمیم جو پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کی ’’ضامن ہے‘‘ میں ترمیم کی خاطر سودے بازی کے لئے لایا گیا تو وہ اس کا حصہ نہیں بنیں گے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن