علاقائی اخبارات قوم کی ضرورت ہیں
وسیع سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی کے باعث دنیا سمٹ کر انسان کی مٹھی میں بند ہو چکی ہے۔ آپ لاڑکانہ یا اوکاڑہ کی بستی میں ہوں یا واشنگٹن ڈی سی اور مانچسٹر میں، جما دینے والی سردی کے حامل کسی براعظم کے دور افتادہ علاقے میں ہوں یا کسی ایسے سلگتے صحرا میں جہاں اردگرد تاحد نگاہ ریت کا ایک سمندر ہو مگر حضرت انسان نظر نہ آئے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ دنیا کے کس علاقے میں ہیں، ہاں فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کس حد تک جانتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی اور اس کا استعمال جس قدر وسیع ہورہا ہے، دنیا اسی قدر سمٹ رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے جہاں مختلف آلات اور مشینیں استعمال ہو رہی ہیں وہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی دور جدید کی ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کررہا ہے اوراپنے قارئین و سامعین اور ناظرین کے سامنے نت نئی خبریں، اطلاعات اور معلومات رکھ رہا ہے۔ عوام الناس تک جو خبریں، اطلاعات اور معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں اس کے پیچھے کوئی تو نیٹ ورک ہے جو ایک منظم و مربوط طریقے سے خبر رسانی کا یہ کام کررہا ہے۔ یہ نیٹ ورک مقامی و علاقائی صحافیوں کا ہے جن کی اہمیت آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی کم نہیں ہوئی یعنی جو ٹیکنالوجی خبر رسانی اور معلوما ت کی فراہمی کے لئے بنائی گئی ہے اس میں اگر اطلاعات و معلومات اور خبروں کا ماخذ، علاقہ اور ذریعہ نکال دیا جائے تو یہ ٹیکنالوجی بذات خود بے سود ثابت ہوگی البتہ دیگر فوائد کی حامل ٹیکنالوجی اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر بہت سُود مند ہوسکتی ہے۔ لہٰذا خبر رسانی کا ذریعہ (علاقائی صحافی) اس سارے کھیل کا مرکزی کھلاڑی ہے جس کے بغیر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اس سے بھرپور استفادہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور یہ شاہین کا تجسس اور چیتے کا جگر رکھتا ہے تب ہی اپنے اخبار کا پیٹ بھرتا ہے۔
علاقائی صحافی سے علاقائی صحافت کا تصور ابھرتا ہے جس کی اہمیت کو دورِ حاضر میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک وقت تھا جب اطلاعات کی ترسیل کا نظام مربوط و منظم تھا نہ آسان، اس وقت علاقائی اخبارات ہی تھے جو اپنے علاقوں کی سیاست، سماج، تہذیب و تمدن، فن و ثقافت، رسم ورواج ، تجارت و معاش، معاشرتی رجحانات اور علاقائی مسائل کو اجاگر کرکے اپنی آواز نہ صرف مقتدر حلقوں تک پہنچاتے تھے بلکہ دیگر علاقوں کو بھی اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو اخبارات آج بھی یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ علاقائی اخبارات سے جڑے نمائندوں کا ہی نیٹ ورک ہے جس سے قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا استفادہ کرتا ہے۔
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے موجودہ ترقی یافتہ دور میں علاقائی اخبارات کی اہمیت دو چندہوئی ہے۔ مثال کے طور پر صادق آباد یا سرگودھا کے کسی دور افتادہ گائوں میں اگر ماحول سے متعلق کوئی ایسی تبدیلی ہوئی ہے جو غیر معمولی ہو تو علاقائی اخبارات کے ذریعے وہ قومی اخبارات اور پھر عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرے گی جس کی طرف ماہرین ماحولیات اور ماہرین ارضیات فوری توجہ دیں گے اور ریسرچ کے ذریعے اس کی وجوہات تلاش کریں گے اور تدارک کا طریقہ کار وضع کریں گے۔ ثابت ہوا کہ مقامی سطح کا کوئی اخبار کس قدر اہم کردار ادا کرسکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ علاقائی صحافت تیزی سے پنپ رہی ہے لہٰذا علاقائی اخبارات مزید اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ آج ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین، بچوں، کسانوں، استحصال زدہ طبقات اور انسانی حقوق سے متعلق جتنے بھی قوانین منظور ہوئے ہیں ان میں علاقائی اخبارات کی رہنمائی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شہروں سے سینکڑوں میل دور جہاں کی آبادی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہوتی ہے، جہاں جاگیردار اپنے ہاری، مزارع اور بستی کے عام باسیوںکو اپنا غلام سمجھتا ہے وہاں ظلمت کے اس انسانیت سوز نظام میں علاقائی اخبارات ہی ہیں جنہوں نے جرأت کی شمع روشن کی اور انسان کو اس استحصالی نظام سے نجات دلائی۔ علاقائی اخبارات نے مقامی قیادت، سیاسی ، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دیگر شعبوں کے مسائل ہمیشہ خوش اسلوبی سے اجاگر کئے، یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ علاقائی اخبارات سے زیادہ منسلک ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح کی معلومات انہیں ٹی وی اور قومی اخبارات سے حاصل ہو رہی ہیں مگر قومی اخبارات میں جگہ نہ ہونے اور ٹی وی پر وقت نہ ہونے کے باعث ان کے اصل مسائل قومی میڈیاکی مجبوریوں کی دبیز تہہ تلے جم کر ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے میں صرف علاقائی اخبارات ہی ہیں جو نہ صرف ان کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں اور پانی، صحت، تعلیم، سماجی بہبود،گلیوں محلوں اور سڑکوں کے مسائل علاقائی انتظامیہ اور سیاسی قیادت کے ذریعے حکام بالا تک پہنچاتے ہیں بلکہ علاقے کی مؤثر آواز کے طور پر ایوان اقتدار کی فضائوں کو مرتعش رکھتے ہیں۔ علاقائی خبروں کے لئے جس طرح جدید میڈیاعلاقائی صحافتی نیٹ ورک کامرہون منت ہے اسی طرح اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچانے کے لئے اب علاقائی اخبارات بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں اور اپنی ویب سائٹ کے ذریعے کمپیوٹر اورموبائل پر موجود ہیں۔
پاکستان میں علاقائی اخبارات ایسے اخبارات کو کہا جاتا ہے جو اسلام آباد، کراچی اورلاہور کے علاوہ دیگر شہروں سے نکلتے ہیں اور ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق متذکرہ تین بڑے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کے علاوہ ملک بھرسے شائع ہونے والے دیگر سب اخبارات علاقائی اخبارات کے زمرے میں آتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل انہیں ’’مفصل اخبارات‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان بننے کے بعد کوئٹہ میں علاقائی اخبارات کے مالکوں اور ایڈیٹروں کاایک کنونشن منعقد ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ علاقائی اخبارات کی کیٹیگری کا نام ’’مفصل‘‘ سے تبدیل کرکے ’’علاقائی‘‘ کر دیا جائے۔ جس پر وفاقی حکومت نے علاقائی اخبارات کی حوصلہ افزائی کے لئے جہاں کچھ اچھے اقدام اٹھائے وہیں ان کا یہ مطالبہ منظور کرکے ان کی کیٹیگری کا نام ’’علاقائی‘‘ کر دیا۔ (جاری)