کورونا وائرس ، لاک ڈاؤن اور معیشت
سید شعیب شاہ رم
سال 2020دنیا کے لئے سخت ترین سال قرار دیا جارہا ہے، اس سال پوری دنیا کی طرح کورونا وائرس کے خدشات کے باعث پاکستان میں بھی کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ مرض سے بچنے کا ایک ہی طریقہ وضع کیا گیا،جس کے بعد پوری دنیالاک ڈاؤن میں جانے سے جمود کا شکار ہے۔ اس وباء نے دنیا کو ایک ناقابل تلافی معاشی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔ غرض چھوٹا بڑا ہر ملک شدید مالی بحران کا شکار ہوا ہے۔ کراچی جیسے بڑے تجارتی مرکز جو ملک کی مجموعی آمدنی کا 65فیصد اور سندھ کا 90فیصد ریونیو دیتا ہے اس شہر کے تاجروں سمیت کام کرنے والے عام لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوئے ۔ بالآخر احتجاج اور مذاکرات کے دوران جن تاجروں نے علامتی طور پر مارکیٹیں کھول دیں ان تاجروں کو گرفتار بھی ہونا پڑا،جن میں آل سٹی تاجر اتحاد کے صدر حماد پونا والا بھی گرفتار ہوکر چندروز قید رہے۔
کراچی کے تاجر رہنماؤں کیساتھ سندھ حکومت کے مذاکرات کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی بیچ میں آنا پڑا اور گورنر سندھ عمران اسماعیل سے مذاکرات میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا انتہائی کلیدی کردار رہا ۔ چیمبر میںشہر کی 400سے زائد چھوٹی بڑی مارکیٹیں ، نمائندہ تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں ۔ اس کے سابق صدر ، بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی اور کراچی چیمبر کے صدر آغا شہاب احمد 15رمضان سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطالبہ کر تے چلے رہے تھے۔جس کے نتیجے میں تاجر رہنماؤں نے بالآخرسندھ حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو اپنا مقدمہ پیش کر کے کامیابی حاصل کر لی ہے۔کراچی چیمبر کے سابق صدر سراج قاسم تیلی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کہیں جانے والا نہیں یہ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔تاہم ہم کاروبار کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔لہٰذا حکومت کومعمولات زندگی کو محفوظ طریقے سے بحال کرنا ہی ہوگا۔چیئرمین بی ایم جی اور صدر کراچی چیمبر آغا شہاب احمد کا مطالبہ ہے کہ لاک ڈاؤن میںنرمی کیساتھ رمضان کے آخرمیںچھوٹے بڑے صنعتکار ،تاجرو دکاندار کو نقصانات کی تلافی میں ریلیف پیکج دیا جائے۔ جبکہ تمام تاجروں و دکانداروں کو صرف ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی واحد شرط پر اپنے کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے۔
سندھ حکومت نے مارکٹیں ہفتہ میں 4روز صبح 6بجے سے شام 5بجے تک کھولنے کی ایس او پیز جاری کی ہیں۔لیکن عملاً یہ مارکیٹیں جیسے ہی کھلیں عوام کا ٹھاٹے مارتا سمندر مارکیٹوں میں امڈ آیا اور لوگ کورونا وائرس کو بھول کر عید کی تیاریوں میںاس طرح گھروں سے نکل کھڑے ہوئے کہ سماجی دوری، ایس او پیز جیسی ہر شہ کو نظر انداز کر دیا گیا ۔حکومت کوایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے پربعض دوکانوں کو سر بمہر بھی کرنا پڑاہے۔ اس پر سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ، آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا مؤقف تھا کہ عام لوگ اور تاجر دو ماہ سے گھروں پرجس طرح محصور تھے، یہ افرا تفری اس کا رد عمل تھا۔ نرمی 4دن سے بڑھا کر 6دن کردی جائے تو مارکیٹ میں آمد ورفت معمول پر آجائے گی۔ کراچی میں عام حالات میں کاروبار بند کیا جائے تو 4ارب روپے کا یومیہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حکومتی دعوے صرف دعوے ہی رہے، بجلی، گیس کے بلوں میں کوئی رعایت نہیں ملی، نہ ہی کرایوں کو مؤخر کیا جاسکا۔ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے ری فنانسنگ اسکیم کی شرائط سخت ہونے سے اس کے ثمرات چھوٹے تاجروں تک نہیں پہنچ سکے۔ جمیل پراچہ کا کنا تھا کسی ایک مارکیٹ کے سیل کئے جانے سے پوری تاجر برادری اور شہریوں کو مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ شہر بھر کی تمام چھوٹی بڑی مارکیٹیں اور شاپنگ مالز چاند رات تک کھول دئیے جائیں، اس سلسلے میں تاجر تنظیمیں ایس او پیز پر سختی سے عمل کروائیں ۔ جبکہ عوام سے قوانین کی پاسداری کروانے کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلی بلز کی مد میں 75ارب روپے کا ریلیف پیکج دے کر بجلی کے بل تین ماہ کیلئے مؤخر کئے گئے تھے مگر بجلی کے بل معمول کے مطابق لگ کر آرہے ہیں۔ عدم ادائیگی پر کنکشن منقطع کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کراچی الیکٹرانک ڈیلر ایسو سی ایشن کے چیئرمین رضوان عرفان کے مطابق وہ ابتداء ہی سے لاک ڈاؤن کے حامی نہیں تھے ۔ سندھ حکومت نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس میں تاجروں سے کسی قسم کی مشاورت نہ کی گئی۔ تاجر بھی کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے حامی ہیں لیکن حکومت سے مطالبہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصان کا نعم البدل تو دیا جاتا ۔لاک ڈاؤن سے کوئی تاجر تنخواہوں، قرض کی ادائیگی ، یوٹیلٹی بلوں اور کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔