• news

ہفتہ اتوار مارکیٹیں بند نہیں ہونگی، شاپنگ مالز بھی کھولے جائیں : چیف جسٹس

اسلام آباد (چوہدری اعظم گل) سپریم کورٹ نے مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دے کرکالعدم کردیا اور ملک بھر میں ہفتہ اتوار سمیت تمام دن شاپنگ مالز اور مارکٹییں کھولنے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کیا کرونا وائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا جاتا؟، کرونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے؟ پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی، پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں لگا نظر بھی نہیں آ رہا، کرونا سے زائد سالانہ اموات دیگر امراض سے ہوتی ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں کرونا مثبت نجی میں منفی نکلتا ہے، ملک میں جسے دل کرتا ہے کرونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ 500 ارب روپے کرونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا۔ پاکستان میں کرونا اس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے۔ عوام حکومت کے غلام نہیں ہیں، لوگ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آئیں گے کیا پھر کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلئے گولیاں ماری جائیں گی؟ کرونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بذریعہ ویڈیو لنک کراچی سے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دکانیں سیل کرنے کی بجائے ایس او پیز پر عمل کرائیں، جو دکانیں سیل کی گئی ہیں انہیں بھی کھول دیں، چھوٹے تاجر کرونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں، وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے، جن چھوٹی مارکیٹوں کو کھولا گیا وہ کون سی ہیں؟ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹیں ہیں؟ طارق روڈ اور صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹوں میں ہوتا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا شاپنگ مالز کے سوا تمام مارکیٹیں کھلی ہیں۔ کمشنر کراچی نے موقف اپنایا کہ مالز میں ستر فیصد لوگ تفریح کیلئے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کمشنر کراچی دکانوں کو سیل نہ کریں۔ تاجروں سے بدتمیزی کی جائے اور نہ ہی رشوت لی جائے۔ عید کے موقع پر ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کی جائیں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ کو فوری طلب کرتے ہوئے بھی ہدایت کی کہ سندھ میں شاپنگ مالز کھولنے سے متعلق ہدایات فوری پیش کی جائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ حکومت آج سے شاپنگ مالز کھولنے پر غور کررہی ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز ہے؟ عید پر رش بڑھ جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، حکومت کے لوگ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں، ہفتہ اور اتوار سے متعلق فیصلے کی کیا منطق ہے، کیا کرونا وائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا جاتا؟، کیا کرونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ کیا ہفتے اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ ہفتے اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟۔ چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے بتایا کہ پشاور میں کوئی شاپنگ مال نہیں‘ تمام کاروباری مراکز کھلے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بھی عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی مال نہیں باقی تمام مارکیٹس کھلی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہفتے اور اتوار کو بھی مالز اور مارکیٹیں بند نہیں ہونگی، نمائندہ این ڈی ایم اے کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کرونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ جس پر نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، اور یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا25 ارب تو آپ کو ملے ہیں، صوبوں کو الگ ملے ہیں، اس کے علاوہ احساس پروگرام کی رقم الگ ہے، 500 ارب روپے کرونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا۔ یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہو گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے این ڈی ایم اے کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟ نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا یہ رقم ابھی پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں جن میں میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہونا شامل ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ تمام شاپنگ مالز کو کھول دیا جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ سندھ حکومت قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے، پنجاب اور اسلام آباد میں مالز کھولنا بھی قومی رابطہ کمیٹی فیصلوں کے برعکس ہوگا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ نمائند ہ این ڈی ایم اے نے بتا یا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ پر 59 ملین خرچ ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا؟۔ کیا قرنطینہ مراکز کیلئے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟ کرونا کے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟۔ کرونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ تقریباً 200 ارب روپے خرچ کردئیے گئے۔ ہر آدمی پر 25 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ یہ صرف این ڈی ایم اے کا بجٹ ہے۔ باقی صوبوں اور اداروں کو ملا کر 500 ارب بنے گا۔ یہ پیسہ ایسی جگہ چلا گیا ہے جہاں سے ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا۔ کرونا کے ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟۔ ٹڈی دل کیلئے این ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دیگا۔ لیکن اگر صنعتیں فعال ہوجائیں تو زرعی شعبہ کی اتنی ضرورت نہیں رہے گی، صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا مجھے نہیں لگتا کرونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے، ملک میں کسی بھی اور مرض میں مبتلا شخص کا بھی اتنا ہی علاج کا حق ہے جتنا کرونا کے مریض کا، دیگر امرا ض میں مبتلا لوگوں کا علا ج کیوں نہیں کیا جا رہا۔ عدالت نے قانون کے تناظر میں حکومتی اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کرونا کا علاج صرف کمرے میں بند کرنا ہے۔ کیا کمرے میں بند ہونے پر 25 لاکھ خرچ ہوتے ہیں؟ ملک میں پولن سے کتنے لوگ مرتے ہیں؟ وفاقی سیکرٹری صحت نے بتایا کہ پولن سے کم و بیش ایک ہزار لوگ مرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ابھی ڈینگی آئے اور پچاس ہزار مر جائیں گے۔ عوام پر حکومت آئین کے مطابق کرنی ہوتی ہے، پاکستان میں غربت ہے، بہت سے لوگ روزانہ کما کر ہی کھانا کھا سکتے ہیں، کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا، کیا کسی کو معلوم ہے دو ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، اور پھر سارا الزام این ڈی ایم اے پر آئے گا، سیکرٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا سنا ہے ہولی فیملی ہسپتال سے لوگوں کو نجی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، سیکرٹری صحت نے کہا اگر مریض منتقل ہو رہے تو یہ ڈاکٹرز کا مس کنڈکٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا محکمہ صحت میں کالی بھیڑیں موجود ہیں، محکمہ صحت تمام کالی بھیڑوں کو جانتا ہے، سب سے تھرڈ کلاس ادویات سرکاری ہسپتالوں میں ہوتی ہیں، کس کو نہیں معلوم ادویات لکھنے کیلئے بھی کمیشن لئے جاتے ہیں اور ادویات لینے کیلئے سو لوگ قطار میں کھڑے ہوتے اور ادویات دینے والا سگریٹ پی رہا ہوتا ہے۔ او پی ڈی میں بھی سو مریض علاج کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور ڈاکٹرزچائے پی رہے ہوتے، کیا کیمرے لگا کر سرکاری ہسپتالوں کی نگرانی نہیں ہو سکتی؟ تمام سرکاری ہسپتالوں کے ہر کمرے میں کیمرے لگائیں، جس پر سیکرٹری صحت نے کہا جہاں جہاں ممکن ہوگا کیمرے نصب کرینگے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم کردیا اور قرار دیا کہ مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اتوار کو بند کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ تی۔ سندھ شاپنگ مالز کھولنے کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور اجازت کے بعد صوبے میں شاپنگ مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل خرچ کرنے سے متعلق اپنا موقف دیں۔ پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی،کرونا سے زائد سالانہ اموات دیگر امراض سے ہوتی ہیں۔ این ڈی ایم اے اربوں روپے کرونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا، این ڈی ایم اے بھی نئی ہدایات لے کر آگاہ کریں۔ کیس کی مزید سماعت آج ہو گی۔ سپریم کورٹ میں کرونا از خود نوٹس کیس میں این ڈی ایم اے نے رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ 123 صفحات پر مشتمل ہے جس میں بتا یا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے کو وزیراعظم نے 25.3 ارب روپے مختص کیے۔ وزارت صحت کی جانب سے 50 ارب روپے مختص کیے گئے جو تاحال جاری نہیں کیے گئے، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب این ڈی ایم اے کو 8 ارب روپے ملے۔ چینی حکومت کی جانب سے 64 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔ این ڈی ایم اے امداد صرف سامان کی صورت میں وصول کرتی ہے کیش رقم کی صورت میں نہیں۔ این ڈی ایم اے امداد کا آڈٹ کرانے کے لیے آڈیٹر جنرل سے درخواست کر چکی ہے۔ بارڈرز پر قرنطینہ مراکز کے حوالے سے تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ تفتان، چمن اور طورخم پر 1200 پورٹ ایبل قرنطینہ تیار کیے گئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن