ہفتہ اتوار دکانیں کھولنے کا حکم صرف عیدتک، آئندہ سماعت پر وضاحت کرینگے:چیف جسٹس
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کرونا از خود نوٹس میں این ڈی ایم اے کی کا رکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پیش رفت رپورٹس طلب کر لیں۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کہ ملک میں پیداوار بڑھے تاکہ پاکستان خود کفیل ہو۔ ریونیو حاصل ہو اور لوگوں کو روز گار ملے۔ سپریم کورٹ میں کرونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربرا ہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ چیئرمین این ڈی ایم اے جنرل افضل عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں بلکہ ہماری تشویش سروسز کے معیار پر ہے۔ کرونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر قرنطینہ سنٹرز کی حالت زار کی ویڈیوزچل رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے لاہور کے رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے ملازمین کا سرکاری لیب سے مثبت اور نجی سے منفی آیا۔ کرونا کے مریض کو دنیا جہان کی ادویات لگا دی جاتی ہیں۔ وڈیو دیکھی جس میں لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کرونا نہیں لیکن ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے۔ قرنطینہ سنٹرز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے، پانی نہیں ہوتا، قرنطینہ سنٹرز میں دس دس لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قرنطینہ سنٹرز کی حالت زار کی ویڈیوزچل رہی ہیں۔ قرنطینہ سنٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں نہ آئیں، ہم بہت غریب ملک ہیں۔ ہماری معیشت کا شمار افغانستان، یمن اور صومالیہ سے کیا جاتا ہے۔ سبپیسے سے کھیل رہے ہیں۔ انسانوں کی کسی کو فکر نہیں، پاکستان کے پاس خرچ کرنے کیلئے لامحدود رقم نہیں ہے۔ چائنہ میں ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اے کو سامان بھجوا رہی۔ یہ ڈیسٹو پاکستان آرمی کیا چیز ہے؟۔ ڈیسٹو کسی آرمی افسر کی نجی کمپنی ہوگی۔ سرکاری نہیں، چیر مین این ڈی ایم اے نے بتا یا کہ ڈیسٹو ایس پی ڈی کی ذیلی کمیٹی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیار ہو سکتے ہیں۔ سٹیل مل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے ہیں۔ تمام پی آئی ڈی سی فیکٹریاں اب بند ہوچکی ہیں۔ سٹیل ملز کو سیاسی وجوہات پر چلنے نہیں دیا جاتا، ہمارے لوگوں کو جانوروں سے بد تر رکھا جارہا ہے۔ سرکار کے تمام وسائل کو لوگوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیئے، کسی مخصوص کلاس کیلئے سرکار کے وسائل استعمال نہیں ہونے چاہئیں جو صرف 2 فیصد ہے این ڈی ایم اے سارا سامان چائنہ سے منگوا رہا ہے۔ مقامی سطح پر سامان کی تیاری کیلئے ایک ہی مشین منگوائی گئی۔ وقت آ رہا ہے دیگر کمپنیوں کو سامان منگوانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملے گا۔ پاکستان کو ہر چیز میں خودمختار ہونا ہوگا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتا یاکہ20 اپریل کے بعد بہت سے اشیاء کی تیاری میں خود مختاری حاصل کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتا یا کہ حکومت کوشش کررہی ہے کہ او پی ڈی کو مکمل کھولا جائے۔ حکومت کے لیے بڑا آسان ہے کہ لاک ڈاون لگا دیں، لیکن حکومت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ لوگ بھوک سے نہ مرجائیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم صومالیہ کی طرف جارہے ہیں لیکن وہ بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں حکومت کی ساری توجہ شہروں پر ہے۔ دیہات میں کوئی نہیں جا رہا، دیہات میں آج بھی لوگ کرونا پر دم ہی کروا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ایک دفعہ جو بندہ قرنطینہ سینٹر پہنچ گیا وہ پیسے دئیے بغیر باہر واپس نہیں آسکتا۔ چاہے وہ نیگٹو ہی کیوں نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا امریکا میں ہر چیز کا معیار دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا یہاں جو سامان منگوایا جاتا ہے اس میں معیار نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں معیاری سامان چاہیئے، تھرڈ کلاس چیزیں باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ جیسے عسکری پارک میں سکریپ شدہ جھولا لگایا گیا تھا۔ پاکستان میں اکثر مال سکریپ شدہ ہی بھیجا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو بتا یا کہ کرونا کی پیک ابھی نہیں آئی، پاکستان میں 46 ہزار مریض ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگ بھی کرونا کے وجود کے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن کرونا کے وجود پر کسی ڈاکٹر نے سوال نہیں اٹھایا، فاقہ کشی سے لوگوں کو بچانے کے لیے عدالت نے راستہ کھولا۔ کل یہ تاثر گیا کہ کرونا سیریس مرض نہیں ہے۔ کرونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جون کا مہینہ کرونا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا مسئلہ ملکی پیداوار کا ہے تاکہ ریونیو بنے اور نوکریاں ملیں۔ ملک میں پاکستان میں ہر کمپنی، ادارہ بند ہو رہا ہے۔ حاجی سینٹر قرنطینہ پر 56 کروڑ خرچ کر دئیے گئے۔ حاجی سینٹر خرچے کے باوجود قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا۔ چلو حاجیوں کی بہتری ہوجائے گی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ لاک ڈائون پہلے جیسا موثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور نائی کی دکانیں کھل رہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے، آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا۔ سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دئیے ہیں۔ سب رجسٹرار کا آفس آپ نے کھول دیا ہے۔ بڑی کرپشن کا ادارہ سب رجسٹرار آفس ہے۔ کرپشن کی تمام میٹنگ سب رجسٹرار آفس میں ہوتی ہیں۔ سندھ حکومت نے پبلک سروس کے نہیں بلکہ سرکاری دفاتر کھولے ہیں۔ عدالت کی ٹڈی دل کی آبزرویشنز پر اٹارنی جنر ل نے کہا ٹڈی دل کا بڑا ریلا ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہونگی۔ پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن دو ہفتے میں اسے ختم کر دیا جاتا تھا۔ فصلوں کے تحفظ کے قائم ادارے کے پاس جہاز تھے جو ٹڈی دل سے نمٹتے تھے۔ چیر مین این ڈی ایم نے بتا یا کہ اس وقت بیس میں سے صرف ایک جہاز فعال ہے۔ تاہم اب مزید ایک جہاز بھی لیا ہے۔ پاک فوج کے پانچ ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ توقع ہے ٹڈی دل سے جلد نمٹ لیا جائے گا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا مالز کھول کر وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائے کے برخلاف جارہی ہے۔ عدالت معاملہ پر ماہرین سے رائے لے کہ لاک ڈاون ختم ہوگیا، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ ہفتے میں دو دن لوگ مارکیٹ نہیں آئیں گے تو وباء کا پھیلاؤ زیادہ نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا آنکھ، کان اور منہ بند نہیں کرسکتے۔ جسٹس سردار طارق نے کہا پنجاب اور اسلام آباد میں مالز حکومتیں کھول رہی تھیں۔ عدالت نے حکم صرف سندھ کی حد تک دیا تھا۔ باقی ملک میں مالز کھل رہے تو سندھ کیساتھ تعصب نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت کا گزشتہ روز کا حکم بالکل واضح ہے، مالز محدود جگہ پر ہوتے ہیں جہاں احتیاط ممکن ہے۔ راجہ بازار، موتی بازار، طارق روڈ پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے، مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں۔ چیف جسٹس نے کہا معلوم ہوا ہے کہ بھارت سے بھی ادویات منگوائی جا رہی ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا حکومت نے بھارت سے ادویات منگوانے پر ایکشن لیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا مناسب ہوگا۔ عدالت ہفتہ اتوار کی کاروباری سرگرمیاں کا معاملہ حکومتوں پر چھوڑ دیں، عدالت کے ہفتہ اتوار کے لاک ڈاون پر حکم سے ممکن ہے۔ حکومت مطمئن نہ ہو لیکن اس پر عمل کیا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہفتہ اتوار کو دکانیں کھولنے کا حکم صرف عید تک کیلئے ہی ہے۔ عدالتی حکم میں قرار دیا گیاکہ چیرمین این ڈی ایم اے کی رپورٹ بڑی مفید ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ کرونا وائرس پاکستان میں وجود رکھتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں اموات ہوئیں،کرونا وائرس کے مریضوں کا بڑے پیمانے پر علاج معالجہ چل رہا ہے۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کافی وسائل چاہیے ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے سینٹری ورکرز کو تنخواہیں اور حفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کرونا خطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی سندھ حکومت کی تجویز مسترد کر دی کیس کے اختتام پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ وضاحت کردیں۔ ہفتہ اتوار کا لاک ڈاؤن عید تک ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آٹھ جون کو ہونے والی سماعت میں وضاحت کر دینگے۔ کیس کی مزید سماعت 8 جون تک ملتوی کردی گئی۔