کرونا، دنیا کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی، عمران: آرمی چیف کی ملاقات
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کو وزیراعظم عمران خان سے اہم ملاقات کی، اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسدعمر اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ ملاقات میں ملکی اندرونی سکیورٹی،کرونا وائرس کی تازہ ترین صورت حال، امدادی کاموں اور مجموعی علاقائی صورت حال پر غور کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا عالمی اقتصادی فورم کے کووڈ ایکشن پلیٹ فارم سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی بہتری کیلئے مشکل فیصلے کیے لیکن وبا کی وجہ سے توازن نہیں رہا۔ حکومت نے انتظامی امور میں توازن رکھنے کے لیے رضاکاروں کی ٹیم تشکیل دی تاکہ پہلے سے دباؤ کا شکار اداروں کو ریلیف ملے اور ایڈمنسٹریشن اپنے امور نبھائے۔ مذکورہ رضاکاروں کی ٹیمیں معاشرے میں سماجی فاصلے رکھنے اور دیگر حکومتی اقدامی میں مدد کرتی ہیں۔ معاشی اصلاحات کے ثمرات جلد نمایاں ہونے تھے، ہم نے متعدد مشکل فیصلے لیے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے توازن برقرار نہیں رہا اور اب ہمیں کرنٹ خسارے سمیت مالی خسارے کا سامنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس عالمی مسئلہ بن کر ابھرا تو اس کا ردعمل بھی عالمی نوعیت کا ہونا چاہے تھا۔ انہوں نے ممالک کے مابین رابطے کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ وزیراعظم نے معاشی مشکلات کے تناظر میں کہا کہ ہمیں وبا کی وجہ سے کئی محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی معاشی منڈی میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے سے ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں ایکسپورٹ کی کمی کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ترسیلات زر میں بھی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں وبا کی روک تھام اور انسداد وبا کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالکوں کی حالت یکسر مختلف ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ملکوں میں وائرس مغربی ممالک کی طرح تیزی سے نہیں پھیلا۔ عالمی قرضوں کے باعث ہمارے جیسے ممالک طبی سہولتوں پرزیادہ خرچ نہیں کرسکتے، ہمیں طبی سہولتوں کی بہتری کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہے،کروڑوں لوگوں کوبھوک سے بچانے کیلئے معیشت کو کھولنا ضروری ہے، وزیراعظم نے عالمی دنیا پر زور دیا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے متاثرہ ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی اور ردعمل دینا ہوگا، آنے والے دنوں میں نئے چیلنجز کا سامنا پوری دنیاکو کرنا ہے انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کرونا کے خلاف ہمارا تجربہ مختلف ہے، پاکستان اور مغربی ممالک میں صورت حال بہت مختلف ہے کیونکہ ہمیں غربت کا چیلنج بھی درپیش ہے کیونکہ پاکستان میں2کروڑ 50 لاکھ ورکرزیومیہ اجرت پرکام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ کرونا وائرس اور لاک ڈائون کی وجہ سے اڑھائی کروڑ خاندان بے روزگار ہوگئے ہیں، ہماری حکومت نے متاثرہ خاندانوں کیلئے احساس ایمرجنسی پروگرام شروع کیا، ہمیں کروناکیسزمیں اضافے کاسامناہے لیکن غربت کو بھی دیکھنا ہے،کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کیلئے معیشت کو کھولنا ضروری ہے۔ پاکستان میں کرونا کیسز میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگر جیسا اندازہ لگایا تھا تعداد اس سے کم ہے انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے بیروزگار ہونے والوں کی مددکیلئے کیش پروگرام قلیل المیعاد حل ہے، ہمیں لاک ڈان کے دوران غریبوں کودرپیش مشکلات کوبھی دیکھنا ہے، ہماری حکومت ایک کروڑ خاندانوں میں نقد رقم اورراشن تقسیم کرچکی ہے۔ وزیر اعظم نے پر زور دیا کہ دنیا کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اور ردعمل دینا ہوگا، آنے والے دنوں میں نئے چیلنجز کا سامنا پوری دنیا کو کرنا ہے۔کرونا کے باعث دنیا بھر میں ایکسپورٹ کم ہوئیں، آئل قیمتیں گر گئیں، ہم نے مشکل صورت حال کے بعد جاری کھاتوں کا خسارہ کم کیا، مصر، نائیجیریا سمیت مختلف ترقی پذیرممالک کے سربراہوں سے بھی اس مسئلے پر گفتگو ہوئی، دوسرے ترقی پذیرممالک کوبھی پاکستان کی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ رواں سال ہمارے ملک کیلئے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے، عالمی قرضوں کے باعث ہمارے جیسے ممالک طبی سہولتوں پرزیادہ خرچ نہیں کرسکتے، ہمیں طبی سہولتوں کی بہتری کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 120 سے 150 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں غربت کا سامنا ہے اور جب تک وہ کام نہیں کریں گے اپنے خاندانوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ اب تک ایک کروڑ سے زائد خاندانوں میں امداد تقسیم کر چکے ہیں لیکن یہ مختصر مدت کا حل ہے۔ کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لئے ہمیں اپنی معیشت کھولنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی ہے اور ہمیں کرونا وائرس کے کیسز بڑھنے اور اس کے پھیلائو کا بھی خدشہ ہے لیکن اگر اکانومی نہیں کھولیں گے تو بھوک کا خطرہ رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغربی ممالک کو بھی کرونا وائرس بڑھنے کے خطرے کا سامنا ہے۔ جب تک ویکسین نہیں آ جاتی بحیثیت ملک و قوم اس وائرس کے ساتھ ہم نے رہنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں کرونا وائرس سے بچائو اور معیشت بحال کرنے کے اقدامات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ G-20 ممالک نے غریب ملکوں کے لئے قرضوں میں رعایت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور دیگر اقدامات کے لئے ہمیں مالیاتی سہولت کی ضرورت ہے اور قرضوں میں ریلیف درکار ہوگا۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے جب تک کرونا وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہوتی اس وقت ہم نے اس کے ساتھ گزرا کرنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ابھی متاثر ہے اور لگتا ہے کہ وائرس اس سال تک تو رہے گا، جب تک ویکسین نہیں ہوگی اس وقت تک تو رہے گا اور اس کا اصل حل ہی ویکسین ہے ، گزارا وہی قوم کرسکتی ہے جو سمجھتی ہو کہ مل کر مشکل وقت کا سامنا کرنا ہے انہوں نے یہ بات بدھ کواسلام آباد میں ٹیلی ہیلتھ پورٹل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ 'ٹیلی ہیلتھ پاکستان اس وقت زبردست قدم ہے، یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ملک پر مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کے خلاف اقدامات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تاکید کی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ پیسہ والے ممالک جن کے پاس ہمارے مقابلے میں بے تحاشا دولت ہے ان کے برے حالات ہیں، بدقسمتی سے ہم اپنے صحت کے نظام اور ہسپتالوں پر توجہ نہیں دے سکے تو ہمارے لیے زیادہ بڑا چیلنج ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب تک وائرس جس طرح پھیلا ہے، اس کا مقابلہ مغربی ممالک سے کریں تو وہ حالات نہیں ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں ابھی تک وہ حالات نہیں ہیں جو ہم باہر کے ملکوں میں دیکھ رہے ہیں لیکن ہمیں اس سال وائرس کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا اس لیے قوم جتنے بھی وسائل ہیں ان کے ساتھ پوری قوم مل کر مقابلہ کرے گی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہ اس سے پہلے ہم نے پی ٹی وی پر ٹیلی سکول شروع کیا تھا اور اس کو مزید وسعت دیں گے اور اب ٹیلی ہیلتھ شروع کیا ہے جس میں ڈاکٹرزکو رجسٹر کریں گے اور خاص کر خواتین ڈاکٹروں کو رجسٹر کروانا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خواتین ڈاکٹر گھر بیٹھے دو دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اس مشکل وقت میں مدد کر سکتی ہیں، جن کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے اس لیے خاص کر خواتین ڈاکٹروں کو حصہ لینا چاہیے لیکن ڈاکٹر بھی رضاکارانہ کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ ' برطانیہ نے جب رضاکار مانگے تو وہاں اڑھائی لاکھ لوگ آئے اور ہمارے ہاں اللہ کا شکر ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ رضاکار ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ 'جب کرونا وائرس ختم بھی ہو ہمیں اس ٹیکنالوجی کی تب بھی ضرورت پڑے گی۔ پھرہمارے ہاں ڈاکٹروں اور عوام کا تناسب بھی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں برا ہے جس کو ہم ٹیلی ہیلتھ سے پورا کرسکتے ہیں وزیراعظم نے کہا کہ 'جیسے یہ سال گزرے گا تو ہمیں لگتا ہے کرونا کے کیسز بھی بڑھیں گے تو ہمیں اپنے ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم سے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے بھی ملاقات کی۔ اس دوران بابر اعوان نے نوجوان پارلیمنٹیرینز کی تربیت سازی کا منصوبہ وزیراعظم کو پیش کیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے نوجوان پارلیمنٹیرینز کی قانون سازی کے شعبے میں تربیت کے منصوبے کو سراہتے ہوئے سینٹ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی۔ عمران خان کا کہنا تھا ہمارے لیے فیڈریشن سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ تحریک انصاف قومی اداروں کو مضبوط اور فعال بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ کرونا وبا کے تناظر میں آنے والے وقت کی مکمل منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ حالات کا مقابلہ کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی بھی منصوبہ بندی جاری ہے۔ وزیراعظم نے کہا قومی اداروں کو مضبوط بنانے میں وزارت پارلیمانی امور کا کلیدی کردار ہے۔ سکوک بانڈز پر عالمی برادری، سرمایہ کاروں کا مثبت ردعمل حکومت پر اعتماد کا مظہر ہے۔ وزیراعظم کا کرونا وائرس سے متعلق عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہری عید کے دوران حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ وزیراعظم سے معاون خصوصی عثمان ڈار نے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر ٹائیگرز فورس سے متعلق ملک بھر میں اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ٹائیگرز فورس کو سندھ میں متحرک کرنے کیلئے انتظامی امور گورنر سندھ عمران اسماعیل کو سونپنے کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم سے علمائے کرام کے وفد نے بھی گفتگو کی جس میں مساجد، خانقاہوں کے معاملات کی بہتری سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوا م کو حفاظتی تدابیر کی ترغیب دینے میں علماء کا کلیدی کردار ہے۔مزید برآں وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ سری نگر میں گزشتہ روز بھارتی قابض فوج نے 15گھروں کو آگ لگائی۔ ہندو توا والی مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔