طیارہ حادثہ، فرانسیسی ٹیم نے متاثرہ رن وے، جہاز گرنے کے مقام کا جائزہ لیا
کراچی +اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ+وقائع نگار خصوصی) فرانسیسی ایئر بس کے ماہرین نے طیارہ حادثے کی جگہ کا معائنہ کیا۔ ماہرین نے ایئر پورٹ کے متاثرہ رن وے کا بھی جائزہ لیا۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کا بھی معائنہ کیا اور شواہد اکٹھے کئے۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن حکام نے جائے وقوعہ پر فرانسیسی تحقیقاتی ٹیم کی معاونت کی۔ سی اے اے کے فائر ڈیپارٹمنٹ اور پی آئی اے کے فلائٹ سیفٹی اور انجینئرنگ کے افسروں نے جائے حادثہ پر بریفنگ دی۔ ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن کی ٹیم بھی ایئر بس ٹیم کے ہمراہ موجود تھی۔ ایئر بس ٹیم نے حادثے کی جگہ پر طیارے کے ملبے کا معائنہ کیا۔ ٹیم نے طیارے کے انجنوں، لینڈنگ گیئرز، ونگ اور فلائٹ کنٹرول سسٹم کا جائزہ لیا۔ غیرملکی ٹیم نے طیارے کے ملبے اور متاثرہ عمارتوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ دوسری جانب کراچی میں پی آئی اے طیارے حادثے میں جاں بحق افراد کی نعشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ایدھی ہوم میں 21 نعشوں کی شناخت ہو چکی ہے، این ڈی ایم اے کے ڈاکٹرز نے ڈینٹل ریکارڈ کے ذریعے بھی نعشوں کی شناخت کا عمل شروع کردیا۔کراچی میں ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ایدھی ہوم میں 56 نعشیں لائی گئی تھیں، 21 نعشیں لواحقین کے حوالے کردی گئی ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 19 نعشوں کو زبرستی لوگ اپنے ساتھ لے گئے۔ فیصل ایدھی نے مزید کہا کہ پولیس ہمیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کر رہی، کراچی کے ایک رکن قومی اسمبلی نے دبائو ڈال کر نعش حوالے کروائی۔ ادھر طیارہ حادثہ کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اے ٹی سی کنٹرولر اور اپروچ ٹاور کنٹرولر نے تحریری جواب جمع کرا دیا۔ کنٹرولر سے ایئر انویسٹی گیشن بورڈ نے تحقیقات کیں۔ پی کے 8303 کو لاہور سے کراچی تک اپروچ ٹاور کنٹرولر نے ہینڈل کیا۔ اپروچ ٹاور نے طیارہ لینڈ کرانے کا ٹاسک اے ٹی سی کنٹرولر کو سونپا۔ اپروچ اور اے ٹی سی کنٹرولر نے کپتان کے بارے میں معلومات تحقیقاتی بورڈ کو بتا دیں۔ اپروچ ٹاور کنٹرولر نے بتایا کہ کپتان نے دی گئی ہدایات نظر انداز کیں۔ لینڈنگ سے قبل طیارے کی اونچائی 1800فٹ ہوتی ہے۔ کپتان طیارے کو 3ہزار فٹ کی اونچائی پر اڑا رہا تھا۔ کپتان نے کہا وہ لینڈنگ سے قبل اونچائی اور سپیڈ مینج کر لے گا۔ کپتان نے پہلی بار لینڈنگ گیئر کھولے بغیر طیارہ لینڈ کر دیا۔ پہلی بار لینڈنگ کی تو انجن رن وے سے ٹکرایا۔ دونوں انجنوں نے 3بار رن وے سے رگڑ کھائی۔ کپتان سپیڈ اور اونچائی مینج کرنے لگا تو لینڈنگ گیئر کھولنا بھول گیا۔ بغیر لینڈنگ گیئر جہاز رن وے سے ٹکرایا تو چنگاریاں نکلیں۔ کپتان نے ایک بار پھر جہاز اڑا لیا اور لینڈنگ کی اجازت مانگی۔ کپتان نے دوبارہ بتایا کہ جہاز کے انجن کام کرنا چھوڑ گئے۔ تحقیقاتی ٹیم نے سوال کیا کہ کیا کپتان نے ایمرجنسی لینڈنگ کا اشارہ دیا تھا۔ کنٹرولر نے بتایا کہ کپتان نے کہا کہ وہ پر سکون ہے‘ لینڈنگ کر لے گا۔ طیارے کو رن وے نمبر25لیفٹ پر لینڈنگ کی اجازت تھی۔ دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزراء نے پریس کانفرنس کی۔ سعید غنی نے کہا کہ طیارہ حادثے میں ہم ورثاء سے اظہار افسوس کرنے جاتے ہیں۔ متاثرین خاندانوں نے شکایت کی کہ کچھ لوگ آکر تماشا لگاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سانحے پر بڑے پیمانے کی غلطی شامل ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی ڈی این اے لیبارٹری عالمی معیار کی ہے۔ جھوٹے بیانات دھوکہ دینے والے حکمرانوں نے دیئے۔ ایئر پورٹ کی حدود میں بلندعمارتوں کے اجازت نامے کی تحقیقات کرائیں گے۔ ناصر شاہ نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو غیر قانونی عمارتوں کیخلاف کارروائی کیلئے کہا گیا۔ دیگر محکمے بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے۔ کرونا کی وجہ سے آگے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ جب تک ویکسین نہیں آتی‘ کرونا کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ سندھ میں فارنزک لیبارٹری ایک سال پہلے قائم کی گئی ہے۔ لیبارٹری میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ طیارہ حادثے کے متاثرین کے ڈی این اے ٹیسٹ 10دن میں مکمل ہو جائیں گی۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کرونا اور طیارہ حادثہ کی وجہ سے عید سادگی سے منائی، ہمیں آئندہ بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ دس دن تک ڈی این اے ٹیسٹ مکمل ہو جائیں گے جس کے بعد لواحقین کو رپورٹ دی جائے گی۔ پاک فوج ‘ رینجنرز اور رپولیس نے بہت مدد کی۔ سعید غنی نے کہا کہ جھلسنے والی خواتین کا بہتر علاج کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے کا نظام سندھ حکومت کے پاس ہوتا تو تنقید ہوتی۔ تحقیقاتی کمیٹی کے تمام ارکان ارشد ملک کے ماتحت ہیں۔ شہداء کے لواحقین کو 10لاکھ روپے دینا مذاق ہے۔ عالمی سطح پر جو معاوضہ طے ہے وہ دیا جانا چاہئے۔ کمیٹی میں پالپا اور سول ایوی ایشن کے نمائندے شامل نہیں کئے گئے۔ ارشد ملک کہتے ہیں پرندے ٹکرانے سے انجن فیل ہوئے۔ ایک دن کیپٹن سجاد کو ہیرو دوسرے دن ولن بنا دیا گیا۔ترجمان پی آئی اے نے کہا ہے کہ جہاز بنانے والی کمپنی کی گیارہ رکنی ٹیم تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ہے۔ انکوئری کمیٹی کو تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے گا۔ پی آئی اے کی اپنی ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ خواہش ہے رپورٹ جلد سامنے آ جائے۔ 2016ء میں حادثے کی رپورٹ دیدی گئی تھی۔ رپورٹ وزارت ہوا بازی کے پاس ہے، ابھی شائع نہیں ہوئی۔ انتظار ہے کہ رپورٹ جلد شائع ہو جائے۔ ہر حادثے کی تحقیقات ہوتی ہیں اور کارروائی بھی ہوتی ہے۔ رپورٹ شائع نہ کرنے کا جواب حکومت بہتر دے سکتی ہے۔ لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور ان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ پی آئی اے کا تحقیقاتی بورڈ سے کوئی تعلق نہیں۔ سجاد گل کے والد سے رابطہ ہوا تھا۔ پاکستان ائیرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے کیپٹن سجاد گل کی میت کے حصول سے تدفین تک پی آئی اے انتظامیہ غیر موجود گی پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ائیرلائن انتظامیہ کی غیر موجودگی کو ائیرلائن ملازمین نے شدت سے محسوس کیا ہے، کم ازکم ڈی ایف او یا چیف پائلٹ فلائنگ سیفٹی کو اہل خانہ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ ترجمان پالپا نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم اور مشیرہوا بازی شفاف تحقیقات تک موجودہ انتظامیہ کو غیر فعال کریں، تحقیقات کیلئے بین الاقوامی ایوی ایشن ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ حادثے کا شکار کاک پٹ وائس ریکارڈر کا کور مل گیا جبکہ وائس ریکارڈ غائب ہے۔ سی اے اے ذرائع کے مطابق کاکپٹ وائس ریکارڈ غائب ہونے کا خدشہ ہے۔ کاک پٹ وائس ریکارڈ نہ ملنے پر تحقیقاتی کا حکام کو سخت تشویش ہے۔ کاکپٹ وائس ریکارڈ تحقیقات میں مدد کیلئے اہم ترین آلہ ہے۔ طیارے کا ڈیجیٹل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ مل گیا ہے۔ ڈیجیٹل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ خصوصی طیارے سے فرانس بھجوا دیا گیا ہے۔