پیارا لوٹے میں
فُکاہیہ کالم لکھنا آسان کام نہیں۔ یہ ہلکے پھلکے اور دل چسپ کالم ہوتے ہیں۔ ان میں زندہ دلی اور خوش طبعی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ فکاہیہ کالم اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں میں چند معروف نام یہ ہیں۔ مولانا چراغ حسن حسرت (سند باد جہازی) پطرس بخاری، ضمیر جعفری، شفیق الرحمن، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، کرنل محمد خان، مستنصر حسین تارڑ، عطاالحق قاسمی اور ڈاکٹر محسن مگھیانہ۔ کرونا وبا کی وجہ سے ہر شخص افسردہ اور پریشان ہے۔ انہی دنوں جھنگ میں مقیم ممتاز کالم نگار، طنز و مزاح نگار، سفرنامہ اور افسانہ نگار ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے فکاہیہ کالموں کا چھٹا مجموعہ ’’پیارا لوٹے میں‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریباََ سبھی کتابیں مجھے پڑھنے کا موقع ملا۔ اردو اور پنجابی، دوزبانوں میں ان کا قلم روانی اور شگفتگی سے چلتا ہے۔
لوٹے کا ہماری زندگی اور سیاست سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت تبدیل کرتا ہے تو اُسے ’’لوٹا‘‘ پکارا جاتا ہے۔ مگر ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اپنے کالم ’’پیارا لوٹے میں‘‘ لکھ کر ادب کے ساتھ اس کا تعلق بنا دیا ہے۔ یعنی انھوں نے سیل فون کو ’’پیارا‘‘ لکھا اور پھر اسے لوٹے میں ڈالتا دکھا دیا۔ وہ یوں کہ بعض لوگ بیگم کے ڈر سے سیل فون واش روم میں لے جاتے ہیں تا کہ وہاں اپنے پیاروں اور پیاریوں سے چھپ چھپ کر گفتگو کر سکیں۔ بسا اوقات یہ سیل فون لوٹے میں جا گرتا ہے۔ گویا یہ پورا کالم سیل فون کے گرد گھومتا ہے۔
ڈاکٹر محسن، پروفیشن کے حوالے سے سینئر سرجن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جنوری 2016 ء میں جھنگ کے سرکاری ہسپتال سے بطور چیف سرجن 20ویں گریڈ سے ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد اپنے ذاتی ہسپتال (فیصل مگھیانہ میموریل ہسپتال جھنگ) میں چیف سرجن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی یہ 20 ویں کتاب ہے۔ انکے کالم سیاسی کے بجائے سوشل موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی طنزو مزاح پر بھی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس لیے اکثر کالموں میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہوتی ہے۔ بعض کالم نویس ایسے ہیں کہ کالموں کی وجہ سے ان کی شاعری اور دیگر تحریریں دب گئیں مثلاََ ابن انشاء اور عطاء الحق قاسمی۔ اکثر تو کالم لکھ کر روزی کما رہے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ ان کا مقصد کالم نگاری سے روٹی کمانا نہیں۔ انھوں نے اپنی کالم نگاری کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ دیگر اصناف ادب میں بھی لکھ کر انھوں نے نام، مقام اور اپنی شناخت بنائی۔ ڈاکٹر محسن، نشتر کے ذریعے روگ اور قلم کے ذریعے لوگوں کا دکھ درد دور کرتے ہیں۔ پنجابی زبان و ادب کے لکھاری ہونے کے ناتے وہ اپنے کالموں میں بھی پنجابی زبان کا ’’تڑکا‘‘ لگاتے ہیں۔ اس طرح ان کے کالم خوشگوار ہو جاتے ہیں۔ وہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی صورتحال کے حوالے سے موجودہ کشمکش اور ناہمواریوں کو لطیف انداز میں طنز کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ان کی تحریریں نعمت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کالم نگاری کی متعدد جہتیں اور سمتیں ہیں۔ فکر و نظر کی توانائیاں، اسلوب و بیان کی شوخیاں اور خوش آرائیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کا ہر کالم مقصدیت بردار ہوتا ہے۔ ان کے کالموں کی مستقل ادبی حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے۔ تبھی تو کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں ورنہ اخبار کی زندگی تو ایک دن کی ہوتی ہے اور اگلے دن نیا اخبار چھپ کر آتا ہے۔ ’’پیارا لوٹے میں‘‘ تیس کالموں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ عمران الحق چوہان نے اپنے دیباچے میں انھیں ’’مثبت کالم‘‘ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے کالم پڑھ کر اندازا ہوا کہ یہاں تو فصل بہار کا سماں ہے۔ ہلکے پھلکے لیکن متنوع موضوعات سے گلستان کتاب مہک رہا ہے۔ کہیں معاشرتی رویوں پر ملیح طنز ہے، کہیں روزمرہ کی زندگی کی ناہمواریوں کا شگفتہ اظہار ہے۔ انفرادی موضوعات سے لے کر اجتماعی مسائل تک ڈاکٹر محسن کا حسنِ خیال یوں اٹھلا کر چلتا ہے کہ قلم کی گدگدی سے صفحے مسکرانے لگتے ہیں‘‘
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا ایک کالم ’’پسندیدہ مشروب‘‘ بھی کتاب میں شامل ہے۔ جس میں انھوں نے بعض افراد سے ان کے پسندیدہ مشروب کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہی سوال رمضان المبارک میں کئی دوستوں سے کیاتو انہوں نے شکنجبین اور مشروب مشرق وغیرہ کے نام لیے۔ تاہم ایک دوست کے جواب نے ہمیں چونکا دیا۔ ان کے پسندیدہ مشروب کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’بھائی، ہم تو وہ چیز پیتے ہیں جسے حرام کہا گیا ہے لیکن اسے پینا بھی ثواب ہے‘‘ ہائیں۔ بھائی وہ ایسی کیا چیز ہے جو حرام ہے مگر پینا حلال ہے۔ جواب ملا۔ جب غصہ آ جائے تو اسے پی جاتے ہیں۔ اب آپ کو تو پتا ہے کہ غصہ حرام ہے مگر اس کو پی جانا ثواب کا کام ہے۔