تاریخ کے جھروکوں سے۔
وقت بھی کیا چیز ہے ،اسکے گزرنے سے تاریخ کے اوراق کچھ اس طرح بے رحمی سے پلٹے جاتے ہیں کہ کبھی تو لمحوں نے خطا کی ہے ،صدیوں نے سزا پائی ہے کا ذکر ہوتا ہے،تو کہیں قوموں کے عروج و زوال کی بے رحم داستان کی وجوہات کا بھی بدرجہ اتم ذکر موجود ہے۔آپ کو شائد یاد ہو کہ صدر نکسن ،جو، انیس سو ستر کی دھائی میںامریکا کے نامور صدوورر میں سے ایک تھے اور ان دنوں جب سابقہ مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش میں بغاوت بپا تھی۔ نکسن امریکا کے حکمران تھے اور انہوں نے اپنے مشہور زمانہ وزیر خارجہ مسٹر کسنجر کو خفیہ دورے پر چائنہ بھیجا تھا اور اکثر دنیا کو اس دورے کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔کسنجر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب انکے دورے کا اختتام ہو رہا تھا تو وہ چین کے وزیراعظم چو این لائی سے رخصتی مصافحہ کر رہے تھے تو انہوں نے محسوس کیا کہ چو این لائی کسی اور طرف دبکھ رہے تھے تو انہوں نے پوچھ ہی لیا تو چو این لائی نے کہا کہ میں اس پل کی طرف دیکھ رہا رہوں جس پر چل کر آپ چین پہنچے ہیں۔اور انہوں نے کہا کہ چین کی یہ روائت ہے کہ چینی قوم اس پل کو کبھی نہیں فراموش کرتی ،جس پر چل کر کوئی ان تک پہنچے۔ ہنری کسنجر لکھتے ہیں کہ وہ سمجھ گئے کو چواین لائی کا اشارہ اس پل کی طرف ہے اور وہ چونکہ پاکستان سے ہو کر چین آئے تھے ، اس لیے وہ مجھے بتا رہے تھے کہ پاکستان اس پل کی طرح ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اس کو نظرانداز کیا یا بھلایا جائے۔اسی طرح صدر نکسن اپنی کتاب ،ان دی ارینہ، کے پہلے ہی صفحہ پر لکھتے ہیںکہ انیس سو چوسٹھ میں جب وہ کراچی میں اپنے نجی دورے پر ایوب خان سے ملے تو ایوب خان چین کے دورے سے ابھی ہی واپس پہنچے تھے تو میں نے ان کو کہاکہ چین کی سب سے زیادہ کس چیزنے انہیں متاثر کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا ، لوگ،لاکھوں لوگ جو گلیوں ،بازاروں میں پاکستانی اور چینی جھنڈے پکڑے ہوئے یک زبان ہوکر تالیاں بجا کر ان کو اور خوش آمدید کہہ رہے تھے اور بقول صدر نکسن جب میں خود ،، و ہاں سے گزرا،تو میں نے دیکھا کہ کئی سو گزوں کے فاصلے پر اکا دکا چینی سپاہی نظر آرہا تھا۔اور جس گاڑی لیموزین پر میں جارہاتھا ، اس کی کھڑکیوں پر پردے چڑھے ہوے تھے اور کوئی استقبال کے لیے بازاروں اور گلیوں میں نہیں تھا۔ مائوزے تنگ کے دور میں چین میں غربت تھی ،جبر تھا،لیکن کسی کی مجال نہ تھی کہ چینی قیادت کو کوئی تبدیل کر سکے ،کیونکہ مائو نے اندرونی طورپر کمیونسٹ پارٹی پر ،اور ملک میں ایسی صورتحال پیداکردی تھی کہ کوئی بیرونی طاقت اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔اور بقول ،صدر نکسن کے صرف یہی ، ان کی واحد اور منفرد یا سب سے بڑی کامیابی تھی۔ یعنی ،چینی قوم کو ایک متحد اور آزاد قوم بنایا اور مسلسل تیس سال اسی کام پر صرف کر دیئے اور آج اگر آپ د یکھیں توچین ایک معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک فوجی طاقت بھی بن چکا ہے حتی کے روس جیسی سپر پاوربھی اس قوم کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکی ،حالاںکہ اس نے چین کی آزادی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا اور روس کا چین میں عوامی سطح اور کمیونسٹ پارٹی پر بہت ہی اثر ورسوخ تھا، جبکہ اس وقت فاتح جنگ عظیم دوم سٹالین، جیسے قد آور لیڈر ،سلطنت روس پر فائز تھے اور جن کی مر ضی کے بغیر چین میں پتا بھی نہیں ہلتا تھا۔لیکن اس وقت کی چینی قیادت نے کمال مہارت سے چین کی نہ صرف روس کے تسلط سے جان چھڑائی بلکہ تن تنہا تمام مغربی طاقتوں کو بھی ،بشمول امریکا کے اپنے اوپر مسلط تو کیا ،بلکہ ان کا ڈٹ کر کوریا، ویتنام اور ہر جگہ مقابلہ کیا۔اور ہائیڈروجن بم کا تجربہ کر کے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر ثابت کر دکھایا۔اور مسلسل ستائیس سال تک ایک طرف روس اور دوسری طرف امریکا سے سردجنگ اور بارڈروں پر لاکھوں روسی و غیر ملکی فوجوں کا سامنا کرتا رہاا وربرے سے برے حا لات میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور نہ کسی کی مدد قبول کی اور اپنی آزادی کی برقراری کیلیے خود اور عوام نے ہر قربانی دی اور کسنجر کی یادداشتوں کے مطابق،چین نے انیس سو اکہتر میں پا کستان کی امریکا سے مل کرسفارتی مدد اس وقت کی جب مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان سے صرف ایک دھاگے سے زیادہ نہیں جڑا رہ گیا تھا۔ہر آزادی کو عزیز رکھنے والے ملک کیلئے ایک پیغام پنہاں ہے کہ فقط تغیر کو اثبات ہے زمانے میں۔وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ان معرکوں کو سر کرنے کیلئے دید ہ ور قیادت،اور اپنی ذاتوں کی نفی کرنے والے ،اور قوم کی خودمختاری کی خاطر اپنے عیش و آرام اور بزدلی اور خوفزدگی کا رد کرتے ہوے، قوموں کی حقیقی خودمختاری کی نیا پار لگانے والے سر پھروں کی ضرورت ہے۔کیوںکہ نکلنے والے آگے نکل جاتے ہیں ،جو ٹھہرے ذرا کچلے جاتے ہیں ،یہی تاریخ کے جھروکوں سے سبق ملتا ہے۔