رویت ہلال اور عید
’’نئے نویلے‘‘ چاند کو عربی زبان میں ’’ہلال‘‘ کہتے ہیں جس کو دیکھنے کے لیے ایک خاص اصطلاح ’’رویت‘‘ ہے گویا پہلا پہلا چاند دیکھنا ’’رویت ہلال‘‘ کہلاتا ہے اور ’’رویت ہلال کمیٹی‘‘ کا کام بھی یہی ہے۔پاکستان میں عوامی سطح پر رویت ہلال کمیٹی کو تقریباً 5 مہینے غیر معمولی پذیرائی ملتی ہے اور ان پانچ مہینوں میں رمضان ، شوال ، ذوالحج ، محرم ، ربیع الاول شامل ہیں باقی سات مہینوں سے عوام کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کہ چاند 29 کا چڑھے یا 30 کاہو۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے 29 رمضان المبارک (ہفتہ) کو عین دوپہر کے وقت اعلان کر دیا تھا کہ عید کل (-24 مئی اتوار کو) ہی ہو گی اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’پاکستان سمیت دنیا بھر میں عید 24 مئی کو ہو گی ‘‘۔
فواد چودھری دراصل 28 رمضان المبارک (جمعہ کو) پریس کانفرنس کر کے ’’رویت ہلال‘‘ کے حوالے سے اپنا لائحۂ عمل اور طریقہ کار لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے لیکن طیارہ حادثہ کے باعث ان کو اپنا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ تاہم اگلے دن انہوں نے عین دوپہر کو پریس کانفرنس ’’کھڑکا‘‘ دی اور دن دوپہر ’’چاند چڑھا دیا‘‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 22 مئی کی رات 10 بج کر 39 منٹ پر شوال کے چاند کی پیدائش ہو چکی ہے لہٰذا 23 مئی (29 رمضان المبارک) کو غروب آفتاب کے بعد شوال کا چاند دوربین سے بآسانی اور واضح نظر آ جائے گا۔‘‘ انہوں نے چاند نظر آنے والے علاقوں کی نشاندہی بھی کر دی کہ سانگھڑ، بدین ، ٹھٹھہ، جیوانی اور پسنی میں 7 بجکر 36 منٹ سے لیکر سوا آٹھ بجے تک چاند دیکھا جا سکے گا۔ فواد چودھری کے دن دیہاڑے چاند چڑھانے کے معاملے کو تو اس وقت ملک کے مذہبی اور سنجیدہ سیاسی حلقوں نے دیوانے کی ’’بڑ‘‘ اور سرکاری رویت ہلال کمیٹی و مسجد قاسم خان پشاور المعروف پوپلزئی کمیٹی کے بعدرویت ہلال کے حوالے سے ایک تیسرا فریق قرار دیا ۔ وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا نور الحق قادری فواد چودھری کی پریس کانفرنس کے فوری بعد رویت ہلال کمیٹی کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اسکی بالادستی کو ’’مسلمہ‘‘ ثابت کرنے کیلئے ایک غیر سنجیدہ سا جملہ بھی کہہ دیا کہ ’’فوادچودھری ہمارے دوست ہیں لیکن آج کل چاند چاند کھیل رہے ہیں۔‘‘ البتہ وزیر مذہبی امور نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’’عیدکا اعلان تو بہر صورت رویت ہلال کمیٹی نے ہی کرنا ہے‘‘ یہ شاید اس لیے ہو کہ علامہ نور الحق قادری کو فواد چودھری اور انکی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں رویت ہلال کمیٹی اور علماء کا پلڑا بھاری نظر آتا ہو گا۔ بہر حال پھر ایسے ہی ہوا ، اعلان تو رویت ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کی شہادتوں اور انکی جانچ پڑتال کے سلسلے میں طویل غور و خوض کے بعد ہی کیا لیکن تب تک عربی کی ضرب المثل ’’الانتظار أشدُّ من الموت‘‘ (انتظار موت سے بھی شدیدتر ہوتا ہے) کے مصداق چاند کی راہ تکتے تکتے عوام کی آنکھیں تھک گئیں۔ پاکستان میں ہر سال عید کے چاند کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ کبھی مولانا پوپلزئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے ہیں تو کبھی تمام مکاتب فکر کی نمائندہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی معاملے کو اُلجھانے کی کوشش کرتی ہے اور ہمارے علماء و عوام کے یہی رویے اسلامیان پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ حبیب جالب کی زبانی چاند کا شکوہ بھی سن لیں جس میں یقیناً ’’عوام‘‘ و ’’خواض‘‘ کے رویوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے کہ؎
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہے یہاں یہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر جب کبھی چاند دیکھنے کا رواج ہوتا تھا‘ تب بھی چاند کی ’’رویت‘‘ اتنی متنازعہ نہیں ہوتی تھی جتنی آجکل سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں متنازعہ بن چکی ہے۔ بہرحال اب بھی جن لوگوں نے دوسرے روز چاند دیکھا انہوں نے فواد چودھری کو دعائیں دیں کہ انکے مضبوط‘ مدلل اور جاندار مؤقف کے باعث 29 رمضان المبارک کو رات سوا دس بجے (اتوار 24 مئی کو) عرب دنیا سمیت عالم اسلام کی اکثریت کے ساتھ عید منانے کا اعلان کرکے کئی ’’پوپلزیوں‘‘ کی اجارہ داری بھی ختم کر دی۔