صدارتی ریفرنس‘ جسٹس فائز نے شہزاد اکبر کی تعیناتی‘ شہریت پر سوالات اٹھا دیئے
اسلام آباد (نامہ نگار) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس پر دائر درخواست کے معاملے میں عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر سے متعلق 15سوالات کیے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا جواب میں کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا سپریم کورٹ سماعت کے دوران دیا گیا بیان طے شدہ تھا۔ انور منصور اور فروغ نسیم توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور شہزاد اکبر نے حکومتی ایما پر بدنیتی پر مبنی ریفرنس تیار کیا۔ شہزاد اکبر کی بطور چیئرمین اثاثہ جات یونٹ تقرری غیر قانونی ہے۔ انور منصور نے عدالت میں بیان فروغ نسیم کی موجودگی میں دیا۔ وزیر قانون نے 18فروری کو انور منصور خان کے ججز کیخلاف بیان کی نہ مخالفت کی نہ ہی اسے روکا اور نہ ہی بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اٹارنی جنرل کا بیان پہلے سے طے شدہ اور تیاری کیساتھ تھا۔ انور منصور خان کے ججز کیخلاف بیان کو مرکزی درخواست اور ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ انور منصور اور فروغ نسیم توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل انور منصور ٹی وی پر کہہ چکے کہ انہوں نے بیان حکومتی معلومات پر دیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ریفرنس وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے تیار کیا۔ وزارت قانون اپنے جواب میں کہہ چکی ہے کہ وزیر اعظم کو سمری اٹارنی جنرل کے مشورے کے بعد بھیجی گئی۔ صدر اور وزیراعظم نے بھیجی گئی سمری پر عمل درآمد ریفرنس تیار کرنے والوں کے مشورے پر کیا۔ قانون میں کہیں درج نہیں کہ خود مختار بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی جائیں۔ وزیر قانون نے قومی خزانے سے 17ملین تقسیم کئے۔ اپنے جواب میں جسٹس فائز عیسی نے شہزاد اکبر کی تعیناتی، شہریت پر بھی سوالات اٹھائے۔ کیا اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے چیئرمین کی تعیناتی پبلک سروس کمشن کے ذریعے ہوئی؟ کیا شہزاد اکبر نے اپنے اثاثے اور اہلخانہ کی شہریت ظاہر کی؟ شہزاد اکبر پاکستان کے شہری ہیں یا دوہری شہریت رکھتے ہیں؟۔ معاون خصوصی آئینی عہدہ نہیں نہ اس کا حکومتی امور سے کوئی تعلق ہے۔ شہزاد اکبر نے میری اور خاندان کی معلومات حاصل کیں۔ شہزاد اکبر بذات خود اپنے آپ کو معاون خصوصی کہتے ہیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے جھنڈے کا غلط استعمال کیا۔ سپریم کورٹ میں منگل دو جون کو صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوگی۔ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ کریگا۔